Thursday 2 Jan 2025 08:07
تحریر: سید اسد عباس
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2006ء کی جنگ ایک خونی معرکہ تھا۔ اسرائیل لبنان سے 34 دن کی لڑائی کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔ یہ جنگ حزب اللہ کی طرف سے دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا اور ہلاک کرنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ نے خطے میں اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو چکنا چور کر دیا اور اسے جنگی دنیا میں ہزیمت اٹھانی پڑی نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ بعنوان "حزب اللہ کے خاتمے کے پیچھے: اسرائیلی انٹیلی جنس کی دہائیاں" جسے نیویارک ٹائمز کے تین صحافیوں نے مل کر تیار کیا اور جس کے لیے اسرائیل، امریکہ اور یورپ میں متعدد خفیہ اہلکاروں اور حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران کے انٹرویوز کیے گئے، کے مطابق 2006ء کی ہزیمت نے اسرائیل کو جنگی ہزیمت کے اسباب پر تحقیق کے لیے پینل بنانے پر مجبور کیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے معلومات کی درست جمع آوری اور اس کے بعد فوجی اقدامات کو اپنی ترجیح قرار دیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کہتی ہے کہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی خفیہ آپریشن تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل تھا۔ رپورٹ کے مطابق تین سابق اسرائیلی عہدیداروں نے بتایا کہ ہم نے حزب اللہ کے فجر میزائلوں پر ٹریکنگ ڈیوائسز لگائیں، جس نے اسرائیل کو خفیہ فوجی اڈوں، ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور نجی گھروں کے اندر چھپے ہوئے جنگی سازوسامان کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ 2006ء کی جنگ کے بعد موساد نے حزب اللہ کے اندر معلومات کے حصول کے لیے اپنے انسانی نیٹ ورک کو بڑھایا۔ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں اسرائیل کے 8200 یونٹ نے حزب اللہ کے رہنماؤں کے مخصوص ٹھکانے، میزائلوں اور راکٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کے حصول کے بعد نیتن یاہو نے 8200 ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور کہا کہ اب ہم ایران پر حملہ کرسکتے ہیں، تاہم اس وقت اسرائیل نے حملہ نہ کیا۔
ان معلومات کے بعد برسوں حزب اللہ کے خلاف معلومات کی جمع آوری نیز منصوبہ سازی جاری رہی۔ انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق جب 2006ء کی جنگ ختم ہوئی، اسرائیل کے پاس حزب اللہ کے 200 سے کم رہنماؤں، کارکنوں، ہتھیاروں کے ذخیروں اور میزائلوں کے مقامات کے لیے "ٹارگٹ پورٹ فولیو" تھے، تاہم ستمبر 2023ء میں حزب اللہ کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کے وقت ہمارے پاس ٹارگڈ پورٹ فولیوز کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ پیجر ڈیوائس اور واکی ٹاکیز دھماکوں کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا گیا کہ 8200 یونٹ اور موساد نے حزب اللہ کو بوبی ٹریپ ڈیوائسز فراہم کرنے کے منصوبے کی حمایت کی۔ اسرائیلی اہلکار کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس کمیونٹی میں ان آلات کو "بٹن" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اسرائیلی انجینئروں نے PETN دھماکہ خیز مواد کو الیکٹرانک آلات کی بیٹریوں میں رکھنے میں مہارت حاصل کی اور انھیں چھوٹے بموں میں تبدیل کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ نسبتاً آسان کام تھا، مشکل کام موساد کو کرنا پڑا، جس نے ایک دہائی تک شیل کمپنیوں کے ذریعے فوجی ساز و سامان اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈیوائسز خریدنے کے لیے دھوکہ دیا۔ 2014ء میں جب جاپانی کمپنی iCOM نے اپنی مقبول IC-V82 واکی ٹاکیز کی تیاری بند کر دی تو موساد نے اس بندش سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 8200 یونٹ نے پتہ لگایا کہ حزب اللہ اپنی تمام فرنٹ لائن فورسز کے لیے اس آلہ کو تلاش کر رہی ہے۔ حزب اللہ نے اپنے فوجیوں کے لیے جو واسکٹیں تیار کی تھیں، اس میں اس واکی ٹاکی کے لیے خصوصی جیب بنائی گئی تھی۔
انٹیلیجنس اہلکاروں کے مطابق واکی ٹاکیز کی اسرائیلی کاپی 2015ء میں لبنان پہنچی۔ لبنان میں بھیجے جانے والے اسرائیلی واکی ٹاکیز کی تعداد 15,000 سے زیادہ تھی۔ 2018ء میں، ایک خاتون اسرائیلی موساد انٹیلی جنس افسر نے ایک منصوبہ تیار کیا، جو پیجر بیٹری میں دھماکہ خیز مواد لگانے پر مشتمل تھا، تاہم حزب اللہ کی جانب سے پیجر ڈیوائس کے کم استعمال کے سبب یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی سیل فون کو ہیک کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ حزب اللہ، ایران اور ان کے اتحادیوں کو اسمارٹ فون استعمال کرنے سے زیادہ محتاط کر دیا۔ فون ہیک کرنے کے بے بنیاد دعوے کیے گئے اور ان کو عربی اور فارسی زبانوں میں سوشل میڈیا پر چلایا گیا، تاکہ لوگ ان کے استعمال کو ترک کر دیں۔ تب حزب اللہ کی قیادت نے پیجرز کے استعمال کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پیجر پیغام رسانی کرتا تھا، لیکن استعمال کرنے والے کے مقام کا نہیں بتاتا تھا اور نہ ہی اس میں کیمرہ یا مائکروفون تھا، جسے ہیک کیا جاسکے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ آٹھ موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق حزب اللہ نے پیجرز کی تلاش شروع کی۔ یوں پیجر منصوبہ دوبارہ سامنے آگیا۔ موساد نے اسرائیلی ساختہ پیجر کی فروخت کے لیے شیل کمپنیوں کا نیٹ ورک بنانے کے لیے کام کیا، تاکہ ان کی اصلیت کو چھپایا جاسکے اور مصنوعات کو ملیشیا کو فروخت کیا جاسکے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے تائیوانی برانڈ گولڈ اپولو کو نشانہ بنایا، جو کہ پیجرز کے لیے مشہور ہے۔ مئی 2022ء میں، BAC Consulting نامی کمپنی بوڈاپاسٹ میں رجسٹرڈ ہوئی۔ ایک ماہ بعد، صوفیہ، بلغاریہ میں، نورٹا گلوبل لمیٹڈ نامی کمپنی رنسن جوز نامی نارویجن شہری کے لیے رجسٹرڈ ہوئی۔ BAC کنسلٹنگ نے AR-924 Rugged کے نام سے جانا جاتا ایک نیا پیجر ماڈل تیار کرنے کے لیے گولڈ اپولو سے لائسنسنگ معاہدہ خریدا۔ یہ موجودہ گولڈ اپولو پیجرز سے زیادہ بڑا تھا، لیکن اسے واٹر پروف کے طور پر فروغ دیا گیا، نیز ظاہر کیا گیا کہ اس کی بیٹری لائف زیادہ ہے۔
موساد کے ایجنٹوں نے حزب اللہ کے خریداروں کو پیجرز کی مارکیٹنگ شروع کر دی اور بڑی تعداد میں خریداری کے لیے رعایتی قیمت کی پیشکش کی۔ موساد نے مارچ 2023ء میں ایک میٹنگ کے دوران نیتن یاہو کو بغیر کسی چھپے ہوئے دھماکہ خیز مواد کے گیجٹ پیش کیا۔ وزیراعظم کو ان کی پائیداری کے بارے میں شک تھا اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا سے پوچھا کہ وہ کتنی آسانی سے ٹوٹ سکتے ہیں۔ مسٹر بارنیا نے انھیں یقین دلایا کہ وہ مضبوط ہیں۔ نیتن یاہو نے اچانک کھڑے ہو کر ڈیوائس کو اپنے دفتر کی دیوار پر دے مارا، جس سے دیوار میں شگاف پڑ گیا، لیکن پیجر نہ ٹوٹا۔موساد فرنٹ کمپنی نے 2023ء موسم خزاں میں پیجرز کی پہلی کھیپ حزب اللہ کو بھیج دی۔ اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق ہم یہ پیجر عام لوگوں کو فروخت نہیں کر رہے تھے، اگر کوئی گاہک آتا تو اسے زیادہ ریٹ بتاتے، تاکہ وہ یہ پیجر نہ خریدے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں کو معلوم ہوا کہ حزب اللہ کا ایک ٹیکنیشن واکی ٹاکی کے بارے میں مشکوک ہے، اسرائیل نے اس ٹیکنیشن کو ایک فضائی حملے میں قتل کر دیا۔ اسرائیل کے ایک سینیئر دفاعی اہلکار کے مطابق اگست کے آخر میں موساد کے سربراہ بارنیا نے نیتن یاہو کو ایک خفیہ خط لکھا۔ خط میں دو سے تین ہفتوں کی کارروائی کا کہا گیا، جس میں گروپ کی نصف سے زیادہ میزائل صلاحیتوں کو ختم کرنا اور اسرائیلی سرحد کے تقریباً چھ میل کے اندر تنصیبات کو تباہ کرنا شامل تھا۔ اسی وقت، سینیئر فوجی حکام نے حزب اللہ کے خلاف مہم کو تیز کرنے کے لیے نیتن یاہو کو لابی کرنے کی اپنی کوشش شروع کی۔ رپورٹ کے مطابق 11 ستمبر کو، انٹیلی جنس نے ظاہر کیا کہ حزب اللہ کچھ پیجرز کو جانچ کے لیے ایران بھیج رہی ہے، یہ فیصلے کا وقت تھا۔
16 ستمبر کو نیتن یاہو نے اعلیٰ سکیورٹی سربراہوں سے ملاقات کی، تاکہ رائے لیں کہ واکی ٹاکیز اور پیجر آپشن کو استعمال کریں، یا اسے ضائع ہونے دیا جائے۔ اس نشست کے بعد نیتن یاہو نے آپریشن کا حکم دیا۔ اگلے دن، دوپہر 3:30 بجے مقامی وقت کے مطابق، موساد نے ہزاروں پیجرز کو ایک خفیہ پیغام بھیجنے کا حکم دیا۔ سیکنڈ بعد پیجرز نے دھماکہ کر دیا۔ جس وقت پیجرز میں دھماکہ ہوا، مسٹر جوز، نارویجن جو کہ موساد کی فرنٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ تھے، بوسٹن میں ایک ٹیکنالوجی کانفرنس میں شریک تھے۔ کچھ ہی دنوں کے اندر، خبروں کے مضامین میں مسٹر جوز کی شناخت آپریشن میں ایک شریک کے طور پر ہوئی اور ناروے کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے ناروے میں واپس چاہتی ہے، جوز کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
پیجرز دھماکہ کے اگلے دن، موساد نے واکی ٹاکیز کو اڑا دیا، جن میں سے زیادہ تر ابھی تک ذخیرہ میں تھے، کیونکہ حزب اللہ کے رہنماؤں نے ابھی تک اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے جنگجوؤں کو متحرک نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر، پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں کئی بچے بھی شامل تھے اور ہزاروں زخمی ہوئے، زیادہ تر ہلاکتیں حزب اللہ کے کارکنوں کی تھیں۔ 20 ستمبر کو، اسرائیلی جیٹ طیاروں نے بیروت میں ایک عمارت پر حملہ کیا، جہاں حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے کمانڈر ایک بنکر میں میٹنگ کر رہے تھے، جس میں حزب اللہ کے فوجی آپریشنز کے سربراہ ابراہیم عقیل کے ساتھ ان میں سے کئی جاں بحق ہوگئے۔ 23 ستمبر کو، اسرائیلی فضائیہ نے ایک بڑی مہم چلائی، جس میں 2,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد حزب اللہ کے درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے اسٹورز تھے۔
دو اسرائیلی دفاعی عہدیداروں اور ایک مغربی عہدیدار کے مطابق، جیسے ہی سینیئر اسرائیلی حکام کو نئی معلومات ملیں کہ حزب اللہ کے سربراہ نے ایک مختلف بنکر میں جانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کو نشانہ بنانا کہیں زیادہ مشکل ہوگا تو 26 ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے نیویارک جا کر حزب اللہ کے سربراہ کے خلاف حملے کی اجازت دی۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے کے بارے امریکیوں کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک جانب دہائیوں پر مشتمل خفیہ ایجنسیوں کا انتہائی پیچیدہ آپریشن اور دوسری جانب 7 اکتوبر 2023ء کا حماس حملہ نیز اس کے بارے میں اسرائیلی فورسز کی لاعلمی۔ ان دونوں میں سے کس بات کو حقیقت سمجھا جائے۔ راقم نے اس سے قبل 8200 یونٹ کے حماس کی تیاریوں کے حوالے سے معلومات پر مشتمل ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا، جس میں راقم کا یہ خیال تھا کہ حماس کے اس حملے کے حوالے سے اسرائیل نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
یہ رپورٹ 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیلی ساکھ کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو چھپانے کی ایک اخباری کوشش بھی ہوسکتی ہے، تاہم اس رپورٹ میں درج واقعات کے انعقاد سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے اسی طرح حزب اللہ کے اراکین کی ٹارگٹ کلنگز اتفاقیہ حادثات نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں، جس کے لیے واقعاً لمبے عرصے تک منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بالفرض اگر اس رپورٹ میں تیس فیصد باتیں بھی سچ ہوں تو یہ اس امر کا عندیہ دیتی ہیں کہ اسرائیل کسی بھی دشمن کو ہلکا نہیں سمجھتا۔ اس کے ادارے باقاعدہ منصوبہ بندی جاری رکھتے ہیں اور ان منصوبوں کو مناسب وقت پر اجراء کرتے ہیں۔ کوئی بھی منظم اور شعبہ جاتی تقسیم کی حامل فورس اسی انداز سے کام کرتی ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم اسرائیل یا امریکہ کو اپنا دشمن کہتے ہیں تو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جذبات نہیں اعلیٰ درجے کی پیشہ وارانہ مہارت درکار ہے، جس کے حصول کا ہمیں قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2006ء کی جنگ ایک خونی معرکہ تھا۔ اسرائیل لبنان سے 34 دن کی لڑائی کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔ یہ جنگ حزب اللہ کی طرف سے دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا اور ہلاک کرنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ نے خطے میں اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو چکنا چور کر دیا اور اسے جنگی دنیا میں ہزیمت اٹھانی پڑی نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ بعنوان "حزب اللہ کے خاتمے کے پیچھے: اسرائیلی انٹیلی جنس کی دہائیاں" جسے نیویارک ٹائمز کے تین صحافیوں نے مل کر تیار کیا اور جس کے لیے اسرائیل، امریکہ اور یورپ میں متعدد خفیہ اہلکاروں اور حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران کے انٹرویوز کیے گئے، کے مطابق 2006ء کی ہزیمت نے اسرائیل کو جنگی ہزیمت کے اسباب پر تحقیق کے لیے پینل بنانے پر مجبور کیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے معلومات کی درست جمع آوری اور اس کے بعد فوجی اقدامات کو اپنی ترجیح قرار دیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کہتی ہے کہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی خفیہ آپریشن تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل تھا۔ رپورٹ کے مطابق تین سابق اسرائیلی عہدیداروں نے بتایا کہ ہم نے حزب اللہ کے فجر میزائلوں پر ٹریکنگ ڈیوائسز لگائیں، جس نے اسرائیل کو خفیہ فوجی اڈوں، ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور نجی گھروں کے اندر چھپے ہوئے جنگی سازوسامان کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ 2006ء کی جنگ کے بعد موساد نے حزب اللہ کے اندر معلومات کے حصول کے لیے اپنے انسانی نیٹ ورک کو بڑھایا۔ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں اسرائیل کے 8200 یونٹ نے حزب اللہ کے رہنماؤں کے مخصوص ٹھکانے، میزائلوں اور راکٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کے حصول کے بعد نیتن یاہو نے 8200 ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور کہا کہ اب ہم ایران پر حملہ کرسکتے ہیں، تاہم اس وقت اسرائیل نے حملہ نہ کیا۔
ان معلومات کے بعد برسوں حزب اللہ کے خلاف معلومات کی جمع آوری نیز منصوبہ سازی جاری رہی۔ انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق جب 2006ء کی جنگ ختم ہوئی، اسرائیل کے پاس حزب اللہ کے 200 سے کم رہنماؤں، کارکنوں، ہتھیاروں کے ذخیروں اور میزائلوں کے مقامات کے لیے "ٹارگٹ پورٹ فولیو" تھے، تاہم ستمبر 2023ء میں حزب اللہ کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کے وقت ہمارے پاس ٹارگڈ پورٹ فولیوز کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ پیجر ڈیوائس اور واکی ٹاکیز دھماکوں کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا گیا کہ 8200 یونٹ اور موساد نے حزب اللہ کو بوبی ٹریپ ڈیوائسز فراہم کرنے کے منصوبے کی حمایت کی۔ اسرائیلی اہلکار کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس کمیونٹی میں ان آلات کو "بٹن" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اسرائیلی انجینئروں نے PETN دھماکہ خیز مواد کو الیکٹرانک آلات کی بیٹریوں میں رکھنے میں مہارت حاصل کی اور انھیں چھوٹے بموں میں تبدیل کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ نسبتاً آسان کام تھا، مشکل کام موساد کو کرنا پڑا، جس نے ایک دہائی تک شیل کمپنیوں کے ذریعے فوجی ساز و سامان اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈیوائسز خریدنے کے لیے دھوکہ دیا۔ 2014ء میں جب جاپانی کمپنی iCOM نے اپنی مقبول IC-V82 واکی ٹاکیز کی تیاری بند کر دی تو موساد نے اس بندش سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 8200 یونٹ نے پتہ لگایا کہ حزب اللہ اپنی تمام فرنٹ لائن فورسز کے لیے اس آلہ کو تلاش کر رہی ہے۔ حزب اللہ نے اپنے فوجیوں کے لیے جو واسکٹیں تیار کی تھیں، اس میں اس واکی ٹاکی کے لیے خصوصی جیب بنائی گئی تھی۔
انٹیلیجنس اہلکاروں کے مطابق واکی ٹاکیز کی اسرائیلی کاپی 2015ء میں لبنان پہنچی۔ لبنان میں بھیجے جانے والے اسرائیلی واکی ٹاکیز کی تعداد 15,000 سے زیادہ تھی۔ 2018ء میں، ایک خاتون اسرائیلی موساد انٹیلی جنس افسر نے ایک منصوبہ تیار کیا، جو پیجر بیٹری میں دھماکہ خیز مواد لگانے پر مشتمل تھا، تاہم حزب اللہ کی جانب سے پیجر ڈیوائس کے کم استعمال کے سبب یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی سیل فون کو ہیک کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ حزب اللہ، ایران اور ان کے اتحادیوں کو اسمارٹ فون استعمال کرنے سے زیادہ محتاط کر دیا۔ فون ہیک کرنے کے بے بنیاد دعوے کیے گئے اور ان کو عربی اور فارسی زبانوں میں سوشل میڈیا پر چلایا گیا، تاکہ لوگ ان کے استعمال کو ترک کر دیں۔ تب حزب اللہ کی قیادت نے پیجرز کے استعمال کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پیجر پیغام رسانی کرتا تھا، لیکن استعمال کرنے والے کے مقام کا نہیں بتاتا تھا اور نہ ہی اس میں کیمرہ یا مائکروفون تھا، جسے ہیک کیا جاسکے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ آٹھ موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق حزب اللہ نے پیجرز کی تلاش شروع کی۔ یوں پیجر منصوبہ دوبارہ سامنے آگیا۔ موساد نے اسرائیلی ساختہ پیجر کی فروخت کے لیے شیل کمپنیوں کا نیٹ ورک بنانے کے لیے کام کیا، تاکہ ان کی اصلیت کو چھپایا جاسکے اور مصنوعات کو ملیشیا کو فروخت کیا جاسکے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے تائیوانی برانڈ گولڈ اپولو کو نشانہ بنایا، جو کہ پیجرز کے لیے مشہور ہے۔ مئی 2022ء میں، BAC Consulting نامی کمپنی بوڈاپاسٹ میں رجسٹرڈ ہوئی۔ ایک ماہ بعد، صوفیہ، بلغاریہ میں، نورٹا گلوبل لمیٹڈ نامی کمپنی رنسن جوز نامی نارویجن شہری کے لیے رجسٹرڈ ہوئی۔ BAC کنسلٹنگ نے AR-924 Rugged کے نام سے جانا جاتا ایک نیا پیجر ماڈل تیار کرنے کے لیے گولڈ اپولو سے لائسنسنگ معاہدہ خریدا۔ یہ موجودہ گولڈ اپولو پیجرز سے زیادہ بڑا تھا، لیکن اسے واٹر پروف کے طور پر فروغ دیا گیا، نیز ظاہر کیا گیا کہ اس کی بیٹری لائف زیادہ ہے۔
موساد کے ایجنٹوں نے حزب اللہ کے خریداروں کو پیجرز کی مارکیٹنگ شروع کر دی اور بڑی تعداد میں خریداری کے لیے رعایتی قیمت کی پیشکش کی۔ موساد نے مارچ 2023ء میں ایک میٹنگ کے دوران نیتن یاہو کو بغیر کسی چھپے ہوئے دھماکہ خیز مواد کے گیجٹ پیش کیا۔ وزیراعظم کو ان کی پائیداری کے بارے میں شک تھا اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا سے پوچھا کہ وہ کتنی آسانی سے ٹوٹ سکتے ہیں۔ مسٹر بارنیا نے انھیں یقین دلایا کہ وہ مضبوط ہیں۔ نیتن یاہو نے اچانک کھڑے ہو کر ڈیوائس کو اپنے دفتر کی دیوار پر دے مارا، جس سے دیوار میں شگاف پڑ گیا، لیکن پیجر نہ ٹوٹا۔موساد فرنٹ کمپنی نے 2023ء موسم خزاں میں پیجرز کی پہلی کھیپ حزب اللہ کو بھیج دی۔ اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق ہم یہ پیجر عام لوگوں کو فروخت نہیں کر رہے تھے، اگر کوئی گاہک آتا تو اسے زیادہ ریٹ بتاتے، تاکہ وہ یہ پیجر نہ خریدے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں کو معلوم ہوا کہ حزب اللہ کا ایک ٹیکنیشن واکی ٹاکی کے بارے میں مشکوک ہے، اسرائیل نے اس ٹیکنیشن کو ایک فضائی حملے میں قتل کر دیا۔ اسرائیل کے ایک سینیئر دفاعی اہلکار کے مطابق اگست کے آخر میں موساد کے سربراہ بارنیا نے نیتن یاہو کو ایک خفیہ خط لکھا۔ خط میں دو سے تین ہفتوں کی کارروائی کا کہا گیا، جس میں گروپ کی نصف سے زیادہ میزائل صلاحیتوں کو ختم کرنا اور اسرائیلی سرحد کے تقریباً چھ میل کے اندر تنصیبات کو تباہ کرنا شامل تھا۔ اسی وقت، سینیئر فوجی حکام نے حزب اللہ کے خلاف مہم کو تیز کرنے کے لیے نیتن یاہو کو لابی کرنے کی اپنی کوشش شروع کی۔ رپورٹ کے مطابق 11 ستمبر کو، انٹیلی جنس نے ظاہر کیا کہ حزب اللہ کچھ پیجرز کو جانچ کے لیے ایران بھیج رہی ہے، یہ فیصلے کا وقت تھا۔
16 ستمبر کو نیتن یاہو نے اعلیٰ سکیورٹی سربراہوں سے ملاقات کی، تاکہ رائے لیں کہ واکی ٹاکیز اور پیجر آپشن کو استعمال کریں، یا اسے ضائع ہونے دیا جائے۔ اس نشست کے بعد نیتن یاہو نے آپریشن کا حکم دیا۔ اگلے دن، دوپہر 3:30 بجے مقامی وقت کے مطابق، موساد نے ہزاروں پیجرز کو ایک خفیہ پیغام بھیجنے کا حکم دیا۔ سیکنڈ بعد پیجرز نے دھماکہ کر دیا۔ جس وقت پیجرز میں دھماکہ ہوا، مسٹر جوز، نارویجن جو کہ موساد کی فرنٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ تھے، بوسٹن میں ایک ٹیکنالوجی کانفرنس میں شریک تھے۔ کچھ ہی دنوں کے اندر، خبروں کے مضامین میں مسٹر جوز کی شناخت آپریشن میں ایک شریک کے طور پر ہوئی اور ناروے کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے ناروے میں واپس چاہتی ہے، جوز کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
پیجرز دھماکہ کے اگلے دن، موساد نے واکی ٹاکیز کو اڑا دیا، جن میں سے زیادہ تر ابھی تک ذخیرہ میں تھے، کیونکہ حزب اللہ کے رہنماؤں نے ابھی تک اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے جنگجوؤں کو متحرک نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر، پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں کئی بچے بھی شامل تھے اور ہزاروں زخمی ہوئے، زیادہ تر ہلاکتیں حزب اللہ کے کارکنوں کی تھیں۔ 20 ستمبر کو، اسرائیلی جیٹ طیاروں نے بیروت میں ایک عمارت پر حملہ کیا، جہاں حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے کمانڈر ایک بنکر میں میٹنگ کر رہے تھے، جس میں حزب اللہ کے فوجی آپریشنز کے سربراہ ابراہیم عقیل کے ساتھ ان میں سے کئی جاں بحق ہوگئے۔ 23 ستمبر کو، اسرائیلی فضائیہ نے ایک بڑی مہم چلائی، جس میں 2,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد حزب اللہ کے درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے اسٹورز تھے۔
دو اسرائیلی دفاعی عہدیداروں اور ایک مغربی عہدیدار کے مطابق، جیسے ہی سینیئر اسرائیلی حکام کو نئی معلومات ملیں کہ حزب اللہ کے سربراہ نے ایک مختلف بنکر میں جانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کو نشانہ بنانا کہیں زیادہ مشکل ہوگا تو 26 ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے نیویارک جا کر حزب اللہ کے سربراہ کے خلاف حملے کی اجازت دی۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے کے بارے امریکیوں کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک جانب دہائیوں پر مشتمل خفیہ ایجنسیوں کا انتہائی پیچیدہ آپریشن اور دوسری جانب 7 اکتوبر 2023ء کا حماس حملہ نیز اس کے بارے میں اسرائیلی فورسز کی لاعلمی۔ ان دونوں میں سے کس بات کو حقیقت سمجھا جائے۔ راقم نے اس سے قبل 8200 یونٹ کے حماس کی تیاریوں کے حوالے سے معلومات پر مشتمل ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا، جس میں راقم کا یہ خیال تھا کہ حماس کے اس حملے کے حوالے سے اسرائیل نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
یہ رپورٹ 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیلی ساکھ کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو چھپانے کی ایک اخباری کوشش بھی ہوسکتی ہے، تاہم اس رپورٹ میں درج واقعات کے انعقاد سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے اسی طرح حزب اللہ کے اراکین کی ٹارگٹ کلنگز اتفاقیہ حادثات نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں، جس کے لیے واقعاً لمبے عرصے تک منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بالفرض اگر اس رپورٹ میں تیس فیصد باتیں بھی سچ ہوں تو یہ اس امر کا عندیہ دیتی ہیں کہ اسرائیل کسی بھی دشمن کو ہلکا نہیں سمجھتا۔ اس کے ادارے باقاعدہ منصوبہ بندی جاری رکھتے ہیں اور ان منصوبوں کو مناسب وقت پر اجراء کرتے ہیں۔ کوئی بھی منظم اور شعبہ جاتی تقسیم کی حامل فورس اسی انداز سے کام کرتی ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم اسرائیل یا امریکہ کو اپنا دشمن کہتے ہیں تو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جذبات نہیں اعلیٰ درجے کی پیشہ وارانہ مہارت درکار ہے، جس کے حصول کا ہمیں قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1182272
منتخب
5 Jan 2025
4 Jan 2025
4 Jan 2025
4 Jan 2025
2 Jan 2025
3 Jan 2025
3 Jan 2025