ترتیب و تنظیم: علی واحدی
محور مقاومت کے سیدالشہداء شہید قاسم سلیمانی نے دفاع مقدس (ایران عراق جنگ) کے دوران ایک اہم واقعہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دشمن کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ہم آپریشن بیت المقدس کے تیسرے یا چوتھے دن، صبح آٹھ بجے ایک بہت بڑی نہر میں داخل ہوئے، جو تقریباً دو میٹر اونچی اور دو میٹر چوڑی تھی اور مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی تھی، عراقیوں نے اس نہر کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تھا اور اس کے دونوں طرف ان کی فورسز موجود تھیں۔
شہید سلیمانی کہتے ہیں کہ ہم دن کے وقت اس میں داخل ہوئے تاکہ دشمن کو شک نہ ہو۔ میں نے برادر منصور جمشیدی سے کہا کہ خیال رکھیں کہ آپ کا پاؤں بارودی سرنگ پر نہ آئے، بیل کی دو دانت برابر کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی، ہم انہی اونچی جگہوں پر چل رہے تھے کیونکہ وہاں بارودی سرنگوں کی موجودگی کا امکان کم تھا۔ باقی دونوں اطراف میں والمر اور دوسری قسم کی بارودی سرنگیں دبی ہوئی تھیں، ہم نے وہاں جنگی حالات کا جائزہ لیا۔ جب آدمی آگے بڑھتا ہے، تو ہر لمحہ زیادہ آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
فرماتے ہیں کہ آخرکار ہمیں ایک بنکر نظر آیا۔ چونکہ سیدھی سی نہر تھی، ہم ان کا بنکر دیکھ سکتے تھے اور وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے، ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، ہم نے نہر کے اندر کنارے کے ساتھ چلتے ہوئے جھانک کر بنکر کو دیکھا، جو کہ خالی تھا، ہم نے بنکر کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو یہ عراقیوں کی مشین گن کا بنکر تھا، مشین گن بھی موجود تھی۔ یہاں نہر کا اختتام تھا، عراقیوں کی سڑک اس نہر کے قریب سے گزرتی تھی اور ھویزه اور کرخہ نور کے دریا کے کنارے کی طرف جاتی تھی۔
فرماتے ہیں کہ عراقیوں کا ایک یو شکل کا برج تھا، جو اس بنکر سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر تھا، اور تقریباً تیس سے چالیس میٹر دور عراقی اس برج کے پیچھے تھے، ہم نے دیکھا کہ کچھ عراقی فوجی مٹی کے ڈھیر پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ہم نے جائزہ لیا اور دیکھا کہ یہ کاروائی کے لئے ایک بہترین نکتہ ہے۔ جب ہم واپس آئے، میں آگے چل رہا تھا اور برادر جمشیدی میرے پیچھے چل رہے تھے، ایک مقام پر ہم رک گئے تاکہ نہر کے کناروں کو دوبارہ چیک کریں اور دیکھیں کہ وہاں بارودی سرنگیں ہیں یا نہیں۔
فرماتے ہیں کہ برادر جمشیدی سہارا دیا اور میں نے اس کے ہاتھوں پر پاوں کے اوپر چڑھ کر دیکھا، ہم بات کر رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی، برادر جمشیدی کا پاؤں بارودی سرنگ پر چلا گیا، میں نے فوراً ان کا پاؤں باندھا اور انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ ہم نہر کے آخر تک چلتے رہے، لیکن میں مجھے محسوس ہوا کہ میں نہیں لے جا سکتا، ایک جگہ ملی، میں نے انہیں نہر کے کنارے بٹھا دیا۔ پھر میں جلدی سے ایک جیپ میں بیٹھا اور خود کو اپنے بیس تک پہنچایا، کیونکہ حادثے کی جگہ ہماری لائنز سے بہت دور تھی، برادران نے سوچا کہ میں بے ہوش ہو گیا ہوں، دوڑ کر مجھے پکڑا اور بستر کے پاس لے آئے، میں نے انہیں بتایا، فلاں دوست وہاں رہ گیا ہے، وہ گئے اور اسے لے آئے۔
فرماتے ہیں کہ ٹینک کے فائر سے ہمیں پتہ چلا کہ دشمن فرار کر گیا ہے، ہم نےفوراً یہ خبر قرارگاہ کو منتقل کی اور اپنے خطوط میں داخل ہو گئے۔ ہم دشمن کے تعاقب میں چلے گئے، شمال کی طرف سڑک پر، پہلا ٹرک جو اہواز کی طرف جا رہا تھا اور دارخوین کی طرف سے آیا تھا، میں اور برادر آقای بشر دوست تھے جو آج سپاہ میں خدمت کر رہے ہیں، ہم نے دستوں کو کوشک کے قریب ڈیپلائے کیا اور ہم دشمن کے تعاقب میں گئے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کہاں ہیں، میں اور آقای پورعلی، جو کہ اطلاعات کے ذمہ دار تھے اور بہت سارے نوجوان ایک اسٹیشن اور ایک جیپ کے ساتھ دشمن کی تلاش میں سرحد تک گئے۔
فرماتے ہیں ہم سرحد تک پہنچے، اور بارڈر پر لگی علامتوں کو پہلی بار قریب سے دیکھا، میں اور ایک نوجوان، جیپ کے ساتھ ٹیلے پر کھڑے تھے، اپنے بارڈر اور عراقی سرحد کے درمیان، ہم پہلی بار بین الاقوامی سرحد دیکھ رہے تھے، اور یہ پہلا ٹرک تھا جو بارڈر تک پہنچا تھا، اسی ٹیلے پر سب کھڑے تھے، شہید راجی گاڑی کے اوپر اور پوریانی سڑک پر تھے اور میں بھی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، دوربین سے ارد گرد جائزہ لے رہے تھے کہ دشمن کو دیکھ سکیں، اچانک میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے ایک چمک اور روشنی اٹھی، تب ہمیں پتہ چلا کہ ٹینک کا فائر تھا اور اس نے ہماری اسٹیشن گاڑی کو نشانہ بنایا، اب ہمیں معلوم ہوا کہ عراقی کہاں ہیں۔؟
فرماتے ہیں کہ سڑک خالی تھی اور ہر چیز سیدھی ٹینکوں کے نشانے پر تھی، ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس مڑے، گاڑی بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی، تمام ذمہ داران موجود تھے۔ ٹینک نے گولہ باری شروع کر دی، ایک گولہ گاڑی کے سامنے لگا اور دوسرا ایک ساتھ گرا، میں نے جوانوں سے کہا کہ اگلا گولہ گاڑی کے اندر آئے گا اور ایسا ہی ہوا، گولا پچھلے دروازے پر لگا، جس نے گاڑی کی چھت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، پچھلے ٹائر کو پھاڑ دیا اور دوسرے ٹائر کو بھی پھاڑ دیا، صرف دو جوان زخمی ہوئے، ہمارے سامنے تقریباً ۵۰۰ میٹر پر ایک موڑ تھا، یہاں ہم سیدھی فائرنگ سے محفوظ تھے۔