0
Friday 3 Jan 2025 12:14

شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے

شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

تاریخ انسانیت حریت پسندوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر دور میں ایسے افراد موجود رہے ہیں کہ جنہوں نے آزادی اور حریت پسندی کی قیمت اپنی جان و خون کے نذرانہ سے پیش کی ہے۔ جب بھی ہم مزاحمت کے شہداء کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان شہداء کا دائرہ وسیع ہے۔ یعنی یہ حدود و قیود سے باہر ہے۔ اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ حریت پسندی کی راہ میں قربان ہونے والے صرف مسلمان شہداء ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ یعنی جب ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حریت پسندی اور عزت و افتخار کے دفاع کی جنگ میں جان دینے والوں کا تعلق عالمگیر ہے تو پھر عالمی مزاحمت کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ یعنی جہاں بھی ظلم اور استبداد ہے، وہاں مظلوم موجود ہیں اور مظلوموں میں حریت پسندی ہے اور یہ راستہ ان کو شہادت کے مقام تک لے جاتا ہے، لیکن ظالم و جابر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنے دیتا۔

جیسا کہ ماہ جنوری ہے اور اس کے ابتدائی ایام عالمی مزاحمت سے تعلق رکھنے والے ایسے شہداء کے ایام ہیں کہ جن کو بغداد کے ایئرپورٹ پر دنیا کی شیطانی حکومت امریکہ نے میزائل حملوں میں شہید کر دیا تھا، یعنی شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس۔ شہید قاسم سلیمانی ایران کے جرنیل تھے اور وہ سرکاری مشن پر عراق پہنچے تھے، جہاں ان کو امریکی حکومت نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکہ نے دنیا کے تمام تر قوانین اور اقداروں کو پامال کیا اور قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔ جب ہم عالمی مزاحمت کے تناظر میں بات کرتے ہیں اور پھر قاسم سلیمانی جیسے عظیم شہید کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے، یعنی وہ ہیرو ہیں اور ایک آئیکون ہیں۔ یہ بات کیوں کہی جاتی ہے۔؟ یقیناً اس میں کچھ عوامل کارفرما ہیں، جو کہ خود قاسم سلیمانی کی خدمات سے منسوب ہیں۔

جنرل قاسم سلیمانی ایک بے مثال شخصیت کا نام ہے کہ جنہوں نے پوری زندگی جہاد فی سبییل اللہ کیا اور دنیا بھر میں موجود مظلوم اور کمزور کر دیئے گئے لوگوں کو طاقتور کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جب فلسطین میں اسرائیل بنا دیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اطراف میں امریکی و صیہونی تسلط بڑھتا چلا گیا کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ اسرائیلی فوجیں لبنان میں قابض تھیں، شام و اردن اور مصر کے علاقوں پر بھی اسرائیلی فوجوں کا قبضہ تھا۔ فلسطینی عوام کی کوئی آواز سننے والا نہ تھا۔ فلسطین پتھروں سے لڑتے تھے، غلیلوں سے مقابلہ کرتے تھے۔ لبنان میں اسرائیل قابض ہو کر ظلم کی طویل داستان رقم کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں قاسم سلیمانی نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی کہ مظلوموں اور کمزور بنا دیئے جانے والوں کے لئے نجات کا سامان میسر کریں۔ انہوں نے فلسطین اور لبنان میں یہ کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کو لبنان سے پسپائی کا سامنا ہوا۔

یہ شہید قاسم سلیمانی ہی تھے کہ جنہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث غزہ اور مغربی کنارے جیسے علاقوں میں فلسطینی مزاحمت کو طاقتور کیا۔ ان کے خالی ہاتھوں کو ہر ضروری اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے بھر دیا کہ جس کے ذریعہ وہ فلسطین اور اپنی ناموس کا دفاع کریں۔ فلسطینی مزاحمتی رہنمائوں نے اعتراف کیا کہ جب غزہ محاصرے میں تھا تو دنیا تماشا دیکھ رہی تھی، لیکن قاسم سلیمانی تھے کہ جنہوں نے غزہ پہنچ کر ہماری مدد کی، انہوں نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو طاقتور بنانے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ یقیناً یہ شہید قاسم سلیمانی کی قربانیوں اور انتھک محنت کا ثمر ہے کہ آج غزہ و مغربی کنارے کی مزاحمت خود مختار ہوچکی ہے۔ آج چودہ ماہ سے فلسطینی مزاحمت نے صرف اسرائیل سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے ٹکر لے رکھی ہے اور غاصب اسرائیل کو ہر قدم پر شکست کی دھول چٹانے میں مصروف ہے۔

آج اگر فلسطینی مزاحمت کے رہنمائوں سے خلاصہ پوچھا جائے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شہید قاسم سلیمانی کی محنت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو انہوں نے فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے ترتیب دی تھی۔ اسی طرح لبنان میں ایک طاقتور مزاحمت کا رمز بھی شہید قاسم سلیمانی کی ذات ہے۔ جس کا اعتراف خود لبنان کی مزاحمت حزب اللہ کے قائدین بھی کرچکے ہیں۔ یمن کے انصار اللہ آج جو کچھ انجام دے رہے ہیں، وہ بھی شہید قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی فلسطین کی عالمی مزاحمت کے محور کو مضبوط، طاقتور اور خود مختار بنانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ آج شہید قاسم سلیمانی جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی پاکیزہ روح ہے کہ جو آج بھی عالمی مزاحمت کے اس میدان میں حریت پسندوں کی رہنمائی کر رہی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہے۔

قاسم سلیمانی کو ہم عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو اس لئے بھی کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ظالم اور استبدادی نظام کے سامنے دیوار کھڑی کی۔ جب افغانستان میں امریکی فوجیں پہنچ چکی تھیں تو وہ ایران کے خلاف گھیرا تنگ کر رہے تھے۔ اسی طرح اگلے چند ہی سالوں میں امریکی فوجیں عراق پر قابض ہوگئیں، یہ بھی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا اگلا منصوبہ تھا۔ یہ قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی اور تجربات تھے کہ انہوں نے اسی دور میں ہی ایک طرف غزہ کو طاقتور کرنا شروع کر دیا اور دوسری طرف یمن کو طاقتور کیا۔ اسی طرح افغانستان میں امریکی منصوبوں کی ناکامی میں بھی قاسم سلیمانی پیش پیش تھے۔ عراق سے امریکی فوجوں کا انخلاء بھی قاسم سلیمانی کی حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث ممکن ہوا۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے قاسم سلیمانی کو پیغام بھجوایا کہ انہیں عراق سے نکلنے کا موقع دیا جائے۔ یعنی امریکی فوج نے جان لیا تھا کہ قاسم سلیمانی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں فلسطین سمیت جس خطے میں بھی ظلم، جبر اور ظالم طاقتوں کا قبضہ ہے، وہاں قاسم سلیمانی ہے۔ چاہے قاسم سلیمانی آج شہید ہوچکا ہے لیکن ان کی سوچ اور افکار سے ہزاروں قاسم سلیمانی پیدا ہوچکے ہیں، جو ظالم اور استعماری قوتوں کا راستہ روک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاسم سلیمانی کو آج ہم عالمی مزاحمت کا ہیرو اور نشان تصور کرتے ہیں۔ یہ بات صرف قاسم سلیمانی کے دوست ہی نہیں بلکہ یورپ میں بسنے والے حریت پسند اور انصاف پسند عوام بھی مانتے ہیں۔ آج بھی شام و لبنان اور عراق میں بسنے والے عیسائی خاندانوں کے گھروں میں اگر کسی کی تصویر لگائی جا رہی ہے تو وہ ہمارے ہیرو قاسم سلیمانی کی تصویر ہے۔ قاسم سلیمانی کسی ایک مذہب یا مسلک کے لئے نہیں تھے بلکہ انہوں نے پوری انسانیت کا دفاع کیا۔ شام اور عراق میں داعش کا خاتمہ اس کی واضح مثال ہے کہ جہاں قاسم سلیمانی نے نہ صرف مسلمانوں کا دفاع کیا بلکہ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کا بھی دفاع کیا۔ یہی وہ امتیاز ہے کہ جس نے قاسم سلیمانی کو عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو بنا دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1182155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش