اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزاحمتی محاذ کے کمانڈر حاج عباس الیتامی کی شہادت کی مناسبت سے آج سہ پہر عوام سے خطاب کیا جس میں انہوں نے خطے سمیت ملک کے اہم اندرونی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ شہید حاج عباس اليتامی کی یاد میں لبنانی شہر الھرمل کے حسینیہ سید الشہداء میں منعقد ہونے والی اس تقریب سے اپنے خطاب کے آغاز میں سید حسن نصرالله نے حاج اليتامی کی شہادت پر تبریک و تعزیت پیش کی اور زور دیتے ہوئے کہا کہ میں شہید کو اس رستے کی ابتداء سے جانتا ہوں.. شہید عباس 17 سال کی عمر میں مزاحمتی محاذ کے ساتھ منسلک ہوئے تھے جس کے بعد ہی ان کی شخصیت میں موجود منفرد خصوصیات تیزی کے ساتھ دوستوں کے درمیان مشہور ہونے لگیں۔ سید مقاومت نے شہید کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے تاکید کی کہ یہ شہید اور مزاحمتی محاذ کے دوسرے شہید کمانڈر کم از کم ایک منفرد خصوصیت کے حامل تھے اور وہ یہ کہ یہ لوگ "سپہ سالار" بن کر دنیا میں آئے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شہید الیتامی لبنانی مزاحمتی محاذ سے شامی جنگ میں شامل ہونے والے اولین افراد میں سے تھے، کہا کہ وہ سپاہ قدس کے شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کے ہمراہ بر سر پیکار رہے اور انہوں نے آخر وقت تک شامی محاذ کو ترک نہ کیا۔
سید مقاومت نے لبنان کے اندر اور باہر متعدد محاذوں پر شہید الیتامی کی موثر موجودگی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ شہید ان افراد میں سے نہ تھے کہ جو کسی ایک مقام یا ایک قسم کی جنگ میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں بلکہ شہید تمام محاذوں پر موجود رہتے تھے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ الھرمل کے ساکنین نے مزاحمتی محاذ کو اپنے دامن میں پروان چڑھایا اور اسے اپنے بہترین جوانوں کے خون سے سیراب کیا ہے، کہا کہ الھرمل کے علاقے بعلبک کے رہائشیوں نے غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ کے مذموم منصوبوں کے ساتھ مقابلے کے لئے کسی قربانی سے دریغ کیا اور نہ ہی وہ ملک کے دفاع میں آگے بڑھنے کے لئے کسی بات کے منتظر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی رستے کی طاقت کا راز یہ ہے کہ اس پر چلنے والے لوگ کبھی اور کسی مقام پر بھی اپنے ذاتی مفاد کی تلاش میں نہیں رہے.. جبکہ امریکی سفارتخانہ اور اس کے سفیر جو لبنانی مزاحمتی محاذ کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، مسلسل شکست سے دوچار ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے تاکید کی کہ ہماری طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ ہم نے کبھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش نہیں کی جبکہ امریکہ اور 'خطے میں اس کے ٹولے' کی مشکل یہی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آپ کے نکات قوت میں سے ایک یہ ہے کہ آپ دشمن کو اچھی طرح پہچانتے ہوں؛ جبکہ ہم "امریکہ و اس کی غلبے کی آرزو" اور "صیہونی دشمن و صیہونی منصوبوں" کے "دشمن" ہیں درحالیکہ انہوں نے اس دشمن، یعنی ہمیں تاحال نہیں پہچانا! انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ انہوں نے گزرنے والے ان تمام سالوں کے دوران ہمیں بالکل بھی نہیں پہچانا اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی دنیا طلب گروہ ہیں، کہا کہ وہ سوچتے ہیں کہ پوری دنیا مل کر ہمیں دھمکائے تو اس ذریعے سے وہ ہمارے عزم و ارادے کو بدل سکتے ہیں درحالیکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسلام محمدی(ص) یا کربلاء سے وابستگی کیا ہوتی ہے! انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ جب علی اکبر(ع) جیسا نوجوان، کہ جب اس کو اس کے والد کی جانب سے خبر دی جاتی ہے کہ ہم موت کی جانب گامزن ہیں تو وہ، جواب دیتا ہے کہ "جب تک ہم حق پر ہیں تو اس بات کا کیا فرق کہ موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں.. کیا ہم حق پر نہیں!" تو اس (جواب) کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ لبنانی قوم پسند گروہ، لبنانی خودمختاری کے حقیقی خواہاں ہیں، کہا؛ "وہ (امریکی و مغربی ممالک) مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے کے لئے کھربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں لیکن پھر بھی شکست سے دوچار ہیں.. شام کے خلاف عالمی جنگ چھیڑی گئی اور خودکش بمباروں کو لبنان بھیجا گیا لیکن پھر بھی انہی کو شکست ہوئی.."
سربراہ حزب اللہ لبنان نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ کے تمام مذموم منصوبے ہمیشہ مٹی میں ملے ہیں، کہا کہ لبنان میں امریکی سفارتخانہ ہی لبنانی عوام کی زندگی اور ان کی معیشت کے نشانہ بنائے جانےکا ذمہ دار ہے جو لبنان کے ہر اندرونی معاملے میں مداخلت کرتا ہے درحالیکہ لبنان میں امریکی و سعودی سفارتخانے عرصہ دراز سے ملک میں خانہ جنگی چھیڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عوامی معیشت کو نقصان پہنچا کر لبنان کو بکھیر ڈالنے کا گھناؤنا منصوبہ "خانہ جنگی" کا حقیقی نعم البدل ہے، کہا کہ آج امریکی سازش یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب وہ لبنانی عوام کی معیشت کو نشانہ بنا رہے ہیں لہذا اس حوالے سے ہر چیز کی ذمہ داری امریکی گردن پر عائد ہوتی ہے جبکہ اس سازش کو آگے بڑھانے والی خود امریکی سفیر ہے جو لبنان کے ہر اندرنی مسئلے میں مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایندھن اور پٹرول و ڈیزل کی کمپنیوں کے مسئلے میں، دواؤں اور ان کی ناجائز ذخیرہ اندوزی، شہرداری کے مسائل اور سیاسی جماعتوں کے امور میں، غرضیکہ تمام مسائل میں امریکی سفارتخانہ ہی مداخلت اور ان مسائل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: "خانہ جنگی کا نعم البدل کیا ہے؟ ملک کو بکھیر کر رکھ دینا.. شہر گاؤں اور مختلف طبقات میں بانٹ کر، عوامی معیشت کے ذریعے.. حتی پٹرول کے بحران کے ذریعے روٹی، نانوائی، دواؤں وغیرہ وغیرہ کے ذریعے.. ایسے آشوب میں مسئلہ کہیں بڑھ جاتا ہے، کیا وہ عوام کو صرف مزاحمتی محاذ کے خلاف ہی بھڑکانا چاہتے ہیں..؟ نہیں، مسئلہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے! وہ لوگوں کی زندگیوں کو بکھیر کر رکھ دینا چاہتے ہیں.. یہ ہے وہ چیز جس پر امریکی سفارتخانہ کام کر رہا ہے..!"
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ایران کی جانب سے لبنان کو ارسال کئے جانے والے تیل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان (لبنانی حکام) سے کہا کہ وہ لبنانی (کرنسی) "لیرہ" کے ذریعے ایران سے تیل خریدیں تو وہ کہنے لگے کہ امریکی ہمارا نام دہشتگردی کی فہرست میں ڈال دیں گے.. انہوں نے یہ انکشاف کرتے ہوئے کہ ایندھن کا حامل دوسرا ایرانی بحری بیڑہ بھی عنقریب لبنان کی جانب روانہ ہو جائے گا، تاکید کی کہ مسئلہ ایک یا دو بحری بیڑوں کا نہیں بلکہ درحقیقت یہ وہ رستہ ہے جس پر ہم لبنانی ضرورت کے باقی رہنے تک عمل کرتے رہیں گے کیونکہ مقصد؛ لبنانی عوام کی مدد اور ان کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ سید مقاومت نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "ہم نے دوبارہ کہا کہ اگر ہمیں ضرورت ہوئی تو ہم ایران سے مزید ایندھن خریدیں گے.. پٹرولیم مصنوعات، غذائی سامان یا دوائیں، سب کچھ خریدیں گے.. تو وہ شور شرابہ کرنے لگے اور ہمیشہ کی طرح مذاق بناتے ہوئے کہنے لگے کہ کیا ایران کے پاس پٹرول ہے، کیا اس کے پاس دوائیں ہیں..؟ معلوم نہیں یہ لوگ کہاں رہتے ہیں کہ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں! بہرحال امریکی سفارتخانہ یہاں سخت غلطی کا شکار ہوا ہے.. (جہاں اس نے کہا کہ) یہ لوگ ایران سے پٹرول و ڈیزل کہاں منگوا سکتے ہیں؟"
سید مقاومت نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایک تحریک، کسی حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، کہا کہ وہ (امریکی) لبنان کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح اسرائیل کے لئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا۔ انہوں نے مصری گیس اور اردنی بجلی سمیت لبنان کی مدد کے ہر منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ چیز جو ہمارے لئے اہم ہے یہ ہے کہ ہماری قوم اور اس کی مشکلات؛ سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بالاتر ہیں جبکہ بہت سے ممالک ہماری مدد کو تیار ہیں لیکن اس میں امریکہ کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے امریکہ کی جانب سے دکھائے جانے والے سبز باغوں کی قلعی کھولتے ہوئے تاکید کی: "میں نے ماہرین سے پوچھا ہے؛ اس (امریکی منصوبے) جیسے اقدامات کی انجام دہی میں کم از کم 6 ماہ سے 1 سال کا وقت لگے گا.. وقت کیوں لگے گا؟ اس لئے کہ مصر سے گیس اردن آئے گی.. پھر اردن سے شام اور پھر شام سے لبنان.. اس کے لئے پائپ لائن چاہئے جبکہ شام و اردن کے درمیان موجود پائپ لائن تو تباہ ہو چکی ہے، پھر دوسری طرف آئی ایم ایف کی جانب سے لبنان کو قرضے کی فراہمی کی درخواست بھی قبول کرنا ہے.. اس کے بعد پھر شام سے مذاکرات بھی ہونا ہیں.. مگر کیا شام پر سیزر ایکٹ کے ذریعے پابندیاں عائد نہیں؟ اس حوالے سے وہ استثنی لینا چاہتے ہیں.. ٹھیک! لیکن اس پر کانگریس میں بحث ہونی چاہئے! بالفرض انہوں نے استثنی بھی دے دی اور اس ایک مسئلے کو مستثنی قرار دے دیا گیا.. تو کیا آپ شام کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے؟ اندھیرے میں اور خفیہ خفیہ تو نہیں ہوتا نا.. آپ دیکھ رہے ہیں؟ ہمیں کیسے وعدے دیئے اور وہمی و خیالی باتیں کہی جا رہی ہیں؟ (ذرا سوچیں کہ) اگر انہوں نے (اس منصوبے پر ذرا سا بھی) عمل کیا تو (یوں تو) ہماری فتح ہو جائے گی اور (نتیجے میں) لبنان و شام کا محاصرہ ٹوٹ جائے گا! تھوڑا سا ہی سہی.."
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب کے آخر میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اصولا امریکہ کو چاہئے کہ اس وقت وہ لبنان کی مدد کرے، سال 2006ء کی 33 روزہ جنگ کے بارے زور دیتے ہوئے کہا: "مزاحمتی محاذ 33 روزہ جنگ کے خاتمے پر پہلے سے بڑھ کر طاقتور ہوا ہے.. وہ پہلے بھی طاقتور تھا لیکن ہر ایک جنگ کے خاتمے پر پہلے سے کہیں بڑھ کر طاقتور ہوا ہے"۔ سید حسن نصراللہ نے امریکی منصوبہ ساز اداروں کو خبردار کرتے ہوئے کنایہ آمیز لہجے میں کہا کہ جب بھی ایسا کوئی وقت آیا کہ تیل و گیس نکالنے والی کمپنیاں میسر نہ ہوئیں تو ہم ایرانی کمپنیوں سے مدد لینے کو تیار ہیں جنہیں وسیع تجربہ بھی حاصل ہے.. انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں اعلان کیا کہ اگر عالمی کمپنیاں اسرائیلی خوف کے باعث لبنانی تیل نکالنے سے ڈرتی ہیں تو ہم ایرانی کمپنیوں سے لبنانی تیل نکالنے کی درخواست کو بھی بالکل تیار ہیں.. پھر اگر اسرائیلیوں میں جرأت ہوئی تو وہ ان کی جانب ایک مرتبہ میلی آنکھ سے دیکھ کر ہی دکھا دیں!