1
Tuesday 31 Dec 2024 17:39

بنجمن جولانی

بنجمن جولانی
تحریر: فاطمہ محمدی
 
تکفیری دہشت گرد اور صیہونزم کے درمیان تعلق پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس مسئلے میں صیہونی دہشت گردی کو تکفیری دہشت گردی پر تسلط حاصل ہے اور صیہونزم ہی تکفیری دہشت گردی کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ ان دو قسم کی دہشت گردی کے درمیان سبب اور نتیجے والا تعلق برقرار ہے جبکہ کچھ حساس مواقع پر یہ تعلق بہت واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور عالمی رائے عامہ بھی اسے اچھی طرح محسوس کرنے لگتی ہے۔ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہم ایک ہی حقیقت کی حامل دہشت گردی کی دو مختلف صورتوں سے روبرو ہیں۔ حال ہی میں شام میں برسراقتدار آنے والے تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سعودی چینل العربیہ کو ایک انٹرویو دیا ہے جس سے تکفیری دہشت گردی اور صیہونی دہشت گردی کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔
 
ابو محمد الجولانی نے اس انٹرویو میں دعوی کیا ہے: "ایران، عراق کی فورسز اور بین الاقوامی مسلح عناصر کی مدد سے شام کے ذریعے اسرائیل کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کرنے والا تھا اور ہم نے اس کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا اور خطے کی سلامتی کی ضمانت فراہم کر دی۔" جولانی کے اس موقف کا اہم نکتہ، غاصب صیہونی رژیم کی چاپلوسی اور اس سے براہ راست تعلق پر مشتمل ہے۔ مزید برآں، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح داعش اور ھیئت تحریر الشام سمیت تمام تکفیری دہشت گرد عناصر نے تل ابیب کی حمایت میں سینہ سپر کر رکھا ہے۔ ابو محمد الجولانی کے اس گستاخانہ بیان میں دیگر بہت سے اہم سوالوں کے جواب بھی پائے جاتے ہیں، جیسے: ھیئت تحریر الشام نے گذشتہ چند سالوں میں اور بشار اسد حکومت کی سرنگونی سے کچھ ماہ پہلے تک خطے کے کس کھلاڑی کی ایماء اور منصوبہ بندی کے نتیجے میں ادلب میں اپنا وجود باقی رکھا ہے؟
 
ابو محمد الجولانی کے اس بیان سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اس تکفیری دہشت گرد گروہ نے غاصب صیہونی رژیم اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جنگ بندی کے فوراً بعد ہی کیوں دمشق پر دھاوا بول دیا اور یہ بغاوت کس ماسٹر مائنڈ کی سبز جھنڈی سے انجام پائی ہے؟ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے حال ہی میں اپنی تقریر میں شام کے سیاسی حالات سے متعلق دو اہم نکات بیان کیے ہیں اور امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے کردار کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ابو محمد الجولانی نے العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے جو اظہار خیال کیا ہے وہ امام خامنہ ای کی باتون کی مکمل تصدیق کرتا ہے۔ ھیئت تحریر الشام کی جانب سے دمشق پر قبضے کے ساتھ ہی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے فوری طور پر اور الجولانی سے پوری طرح ہم آہنگی کے ساتھ شام میں فوجی پیشقدمی کرتے ہوئے صوبہ قنیطرہ اور گولان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
 
اس وقت کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ھیئت تحریر الشام اسرائیل کے غاصبانہ قبضے پر ردعمل ظاہر کرتے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہو گیا کہ اس تکفیری دہشت گرد گروہ کا سربراہ خود بھی اس صیہونی کھیل کا حصہ ہے اور شام میں اس کے مہرے کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ گذشتہ 14 ماہ سے غزہ کے خلاف جاری صیہونی نسل کشی کے دوران ابو محمد الجولانی اور اس کے اتحادی دہشت گردوں نے حتی ایک گولی بھی اسرائیل کی طرف نہیں چلائی جبکہ شام میں صدر بشار اسد حکومت گرا کر یہاں بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار کی ہے۔ جب ابو محمد الجولانی سے شام کی گولان ہائٹس پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اسرائیل سے جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔
 
ساتھ ہی ھیئت تحریر الشام کے سربراہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ شام پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کا مسئلہ اس کے اختیارات سے باہر ہے اور یہ مسئلہ بین الاقوامی اداروں کو حل کرنا چاہیے! یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ شام پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے مسئلے میں خود ابو محمد الجولانی نے بھی اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ اس میں ہر ملک کو دشمن کی جارحیت کے مقابلے میں جائز دفاع کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی بات بھی کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سیاست دان یا گروہ کا حقیقی چہرہ سامنے آنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ قانون ابو محمد الجولانی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بھی صادق آتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں رونما ہونے والے حالات کا جائزہ لینے سے آسانی سے جانا جا سکتا ہے کہ الجولانی کی سرخ لکیر شام کی سلامتی اور خودمختاری کی بجائے تل ابیب کے مفادات ہیں۔
 
ان تمام حالات میں ترکی کے کردار سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ھیئت تحریر الشام کا علاقائی حامی اور سرپرست ہونے کے ناطے ترکی اس تکفیری گروہ کے اسرائیل سے تعلقات سے پوری طرح آگاہ تھا۔ ترک حکمرانوں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے اپنی علاقائی پالیسی میں ھیئت تحریر الشام کا کردار شامل کیا۔ ایسے وقت جب رجب طیب اردگان اور حکمران جماعت انصاف و ترقی پارٹی، بظاہر خود کو فلسطین کا حامی ظاہر کرنے میں مصروف تھے اور غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کر رہے تھے، اندر کھاتے اسرائیل کے کٹھ پتلی تکفیری دہشت گروہ ھیئت تحریر الشام کی سرپرستی میں مصروف تھے اور اسرائیلی روڈمیپ کو عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ آج علاقائی اور عالمی رائے عامہ ہر وقت سے بہتر انداز میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا چہرہ اور اہداف پہچان چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1181646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش