تحریر: سید تنویر حیدر
محسن کشی کا ہنر اگر کوئی سیکھے تو پھر افغانیوں سے سیکھے۔ (تمام افغانی اس زمرے میں نہیں آتے) داستان گویوں کی زبانی افغانیوں کی بہادری کی داستانوں سے ہٹ کر اگر زمینی حقائق کا بنظرعمیق جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ سچ یہ ہے کہ میدان کارزار میں آخر دم تک اپنے قدموں پر جما رہنا ان کی صفت نہیں ہے۔ یہ بات محض کسی قومی تعصب کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی گواہی تاریخ کے اوراق اور جنگ کے میدان دیتے ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی قوت زیادہ دیر تک جم نہیں پائی، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس علاقے پر جو بھی حملہ آور ہوا اس نے اس علاقے پر قبضہ ضرور جمایا ہے اور پھر لوٹ مار کرنے اور اپنے مفادات اٹھانے کے بعد اپنی مرضی سے یہاں سے نکلا ہے۔ 2001 میں ”نائن الیون“ کے بعد جس طرح امریکہ آسانی کے ساتھ افغانستان پر قابض ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
امریکی قبضے کا قصہ کچھ یوں ہے امریکہ نے اپنے زمینی حملے کا آغاز افغانستان کے سرحدی شہر "مزار شریف" سے کیا۔ مزار شریف طالبان کی پہلی دفاعی لائن تھا۔ کہا یہ گیا کہ طالبان مزار شریف میں امریکہ کا قبرستان بنا دیں گے لیکن جب امریکہ نے مزار شریف پر حملہ کیا تو طالبان کی یہ دفاعی لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور طالبان یہاں سے فرار ہو کر کابل پہنچ گئے۔ کابل پہنچ کر طالبان نے دعوٰی کیا کہ اصل میدانِ جنگ کابل میں سجے گا کیونکہ کابل ہماری اسلامی امارت کا دارالخلافہ ہے۔ یہاں ہم گلی گلی میں امریکیوں کا مقابلہ کریں گے اور انہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ امریکی لشکر اپنے ٹینکوں کے ہمراہ بغیر کسی مزاحمت کے کابل شہر میں داخل ہو گیا اور ”امارت اسلامیہ“ کے مجاہدین نے راہِ فرار پر تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے ”قندھار“ میں جا دم لیا۔ قندھار ان دنوں طالبان کی امارت اسلامیہ کا وہ مذہبی مرکز تھا جہاں ان کے امیرالمومنین ملاعمر قیام پذیر تھے۔
یہاں پہنچ کر طالبان نے یہ کہنا شروع کیا کہ قندھار ہمارا اسی طرح کا مذہبی مرکز ہے جس طرح کا مذہبی مرکز ایرانیوں کے لیے ”قم“ ہے۔ لہٰذا اس مقدس شہر میں تو امریکیوں کو ہماری لاشوں سے گزر کر ہی داخل ہونا پڑے گا لیکن امریکی یہاں بھی بغیر ”اذن دخول“ کے داخل ہوگئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ جن کی مردانگی کے افسانے تھے اور جن کے لیے ہمارے بعض ذرائع ابلاغ نے ”افغان باقی کہسار باقی“ کے عنوانات لگائے، انہوں نے قطار در قطار امریکی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہتھیار ڈالنے کا یہ منظر دنیا کے مختلف ٹی وی چینلوں خصوصاً ”بی بی سی“ پر براہ راست دکھایا گیا۔ اس تاریخی پسپائی کے بعد گرفتار ہونے والے طالبان کو کنٹینروں میں بند کر کے ”قلعہ جنگی“ کے حصار میں پہنچا دیا گیا۔ بے شمار طالبان راستے میں ہی دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔ جو باقی بچے انہیں قلعہ جنگی میں ہلاک کر دیا گیا۔ یوں پاکستان میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کرنے والے اپنے منتقی انجام کو پہنچے۔
سوویت یونین کو بھی افغانستان سے نکالنے میں بنیادی کردار طالبان کا نہیں تھا بلکہ اس انخلاء کا اصل محرک ”جنیوا امن معاہدہ“ اور ”میخائل گورباچوف“ کی پالیسی میں آنے والا یوٹرن تھا۔ سوویت یونین کے خلاف زمینی جنگ میں بھی افغانوں کا مجموعی کردار زیادہ مثالی نہیں تھا بلکہ زیادہ تر افغان لاکھوں کی تعداد میں اپنے ملک افغانستان سے فرار ہوکر پاکستان اور ایران چلے گئے۔ البتہ افغانستان کے شمالی حصے کی جماعتوں نے سوویت یونین کے خلاف زیادہ شجاعانہ کردار ادا کیا۔ اس جدوجہد میں احمد شاہ مسعود کا کردار زیادہ نمایاں تھا جو بالآخر ایک بم دھماکے میں طالبان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ افغانیوں کے متقابل جب ہم امریکہ کے مقابلے میں ویٹ نامیوں کا کردار دیکھتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے خلاف اپنی طویل جدوجہد میں اپنے ملک کو نہیں چھوڑا بلکہ ویٹ نام میں رہ کر ہی امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا۔
آج وہی افغان جنہیں پاکستان نے کبھی ان کے مشکل وقت میں انہیں پناہ دے تھی، ہمارے دشمنوں کو اپنے ملک میں پناہ دے کر اور اپنے ہی محسنوں کے خلاف جارحیت کر کے محسن کشی کی ایک نئی روایت قائم کر رہے ہیں۔ ان کے اصل ماضی اور اس سے جڑے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی جدوجہد کو افسانوی رنگ نہ جائے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے اپنی جنگوں میں جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں ان کے ”مربیوں“ کا زیادہ ہاتھ ہے۔ طالبان کی احسان فراموشی کا پیمانہ کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے۔ طالبان نے جب پہلی دفعہ کابل پر قبضہ کیا تو اس وقت کابل شہر میں احمد شاہ مسعود اور شیعہ تنظیم ”حزب وحدت“ کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ جب کہ شہر کے گرد طالبان نے اپنے بیرونی آقاؤں کی مدد سے تقریباً ایک ماہ سے گھیرا ڈال رکھا تھا اور کابل کی شہری آبادی پر مسلسل راکٹ پھینک رہے تھے۔ حزب وحدت کے رہنما سید عبدالعلی مزاری نے طالبان کو ایک معاہدے کے تحت کابل میں داخل ہونے کی راہ داری دی جس کی وجہ سے وہ کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن طالبان نے کابل پر قبضے کے بعد اپنے محسن سید عبدالعلی مزاری کو گرفتار کرلیا اور انہیں فضاء میں ایک ہیلی کاپٹر سے زمین پر گرا کر شہید کر دیا۔
طالبان کو چند سال قبل دوبارہ افغانستان پر مسلط کرنے میں بھی اس وقت کی عمران خان کی حکومت کی سپورٹ اور عمران خان کے پسندیدہ جنرل، جنرل فیض حمید کہ سپہ گری کا کمال ہے۔ طالبان کی کامیابی پر یہ دونوں حضرات خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے طالبان سے قلبی اور روحانی تعلق نے آج اہل پاکستان کو ایک بڑے فتنے کی نذر کر دیا ہے۔ افغانیوں کو جنہوں نے اپنا ہیرو بنایا تھا کیا وہ ان افغانیوں کی وہ پہچان بھول گئے جو ہمارے آباواجداد اپنے ذہنوں کے تہی خانوں میں رکھتے تھے۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ضرور ہے لیکن پاکستان کے بزرگ شہریوں کے نذدیک شروع دن سے اس کی جو پہچان رہی ہے وہ یہ کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ ہے۔ اس کے باشندے جاہل، اجڈ اور وحشی ہیں جو پاکستان میں وارداتیں کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ اسلحے اور منشیات کے سمگلر ہیں۔ بردہ فروشی اور بھتہ خوری ان کا پیشہ ہے۔ قتل و غارت ان کا معمول ہے اور خوف و دہشت ان کی علامت ہے۔ یہ جہاں سے گزرتے ہیں اپنے پیچھے تعفن کی ایک لہر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ایسی مخلوق ہیں جن کے نام سے پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں اور انہیں شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے کہتی ہیں کہ باز آ جاو! ”کابلی“ آ رہا ہے۔
آج یہی کابلی ہماری پوری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر چاہیں تو ارض پاک پر چوبیس گھنٹوں میں قبضہ کر سکتے ہیں لیکن آج کا کابلی وہ ہے جسے مشکل وقت میں ہم نے اپنے گلے لگایا تھا۔ جسے ہم نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی اور اسے ہر قسم کی آزادی دی تھی ۔ ایسی آزادی، کابل میں کوئی پاکستانی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن محسن کشی اور احسان فراموشی کی انتہا ہے کہ ہم نے جنہیں اپنا سر چھپانے کی جگہ دی، وہ ہمارے جوانوں کے سروں کو کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلتے رہے اور اب اپنی اس سابقہ پناہ گاہ کو اپنی تخریب کاری کے ذریعے مسمار کرنا چاہتے ہیں جو کبھی ان کے لیے آغوش مادر کا مقام رکھتی تھی۔ یہ وہی ہیں جن کی بہبود کے لیے ہم نے اپنی پارلیمنٹ میں بجٹ مختص کیا تھا اور انہیں اپنا اثاثہ قرار دیا تھا لیکن آج یہ ہمارا اثاثہ ہمارے لیے بارود کا وہ مواد ثابت ہوا ہے جو ہمیں پر پھٹتا ہے۔ قتیل شفائی کا یہ شعر ایسے ہی محسن کشوں کے لیے ہے۔
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو