0
Monday 30 Dec 2024 23:34

پاراچنار، اے ارض وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا؟

پاراچنار، اے ارض وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا؟
تحریر: علی ناصر الحسینی

پاراچنار کرم ڈسٹرکٹ کا صدر مقام گذشتہ تین ماہ سے مسلسل محصور ہے، اس محصور و حصار کا مطلب ہے کہ یہ ایک بڑی آبادی جو لاکھوں میں ہے، پاکستان سے ہر قسم کے رابطے اور اتصال سے کٹ چکی ہے، کرم ڈسٹرکٹ دراصل شیعہ اکثریتی علاقہ ہے، جس کے تین اطراف سے افغانستان و دیگر اقوام کی اکثریت ہے جبکہ ایک واحد راستہ جسے ٹل پاراچنار روڈ کہا جاتا ہے، اس کا زمینی رابطہ و اتصال پاکستان کیساتھ ہوتا ہے، یہ راستہ اگر بند ہو جائے تو یہ اپر کرم و سنٹرل کرم کے بہت سے وہ علاقوں کے مکین جہاں شیعہ اکثریتی دیہات ہیں، ہر قسم کی ضروریات زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اپر کرم و سنٹرل کرم کے اہل تشیع جو طوری و بنگش قبائل پہ مشتمل ہیں، ایک باغیرت قوم، بہادر و شجاع قبائل ہیں، جن کو کسی بھی دور میں فتح کرنا ممکن نہیں ہوا، یہ جنگ اور لڑائی کے فطری ماہر ہیں، انہیں کسی سے جنگی تربیت کی ضرورت نہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ جیسے دریا کنارے رہنے والے تیراک ہوتے ہیں بلکہ ان کے بہت چھوٹے بچے بھی تیراک ہوتے ہیں، ایسے ہی کرم کے طوری و بنگش اپنی عزت، آبرو، زمینیں، علاقے اور مقدسات کا دفاع کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ماضی میں ان پر بے شمار حملے، لشکر کشیاں ہوتی رہی ہیں، ان کیلئے زمین تنگ کی جاتی رہی ہے اور انہیں جھکانے کی سازشیں، ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں، انہیں لڑانے، ان پر قابو پانے اور ان کو سبق سکھانے کی وارداتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔۔ مگر۔۔ یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے۔۔ طوری و بنگش قبائل نے کرم ایجنسی موجودہ کرم ڈسٹرکٹ جو چہار جانب سے اپنے مخالف قبائل و متعصب مذاہب کے لوگوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں، کبھی بھی ان کے زیر کنٹرول نہیں آئے بلکہ سات ایجنسیز سے مل کر اور افغانستان کے پختونوں کی مدد و حمایت و تعاون کے بعد بھی ان کی زمینوں اور علاقوں کو قبضہ نہیں کرسکے۔

اگر کسی جنگ میں کوئی ایک گاوں ان کے دشمنوں نے حاصل کر بھی لیا تو ان کے جوانوں نے اسے واپس لینے میں دیر نہیں لگائی، ماضی قریب میں 2007ء سے 2011ء تک ان کیساتھ جنگ کرنے سات ایجنسیز اور افغان طالبان و داعشی فکر والوں نے مل کر حملہ آور رہے، جس کا اعتراف تحریک طالبان کے موجودہ امیر نے اپنی کتاب میں برملا کیا ہے۔ اس کیساتھ ریاستی عہدیداروں اور ذمہ داران نے بھی ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کا ساتھ دیتے ہوئے بھرپور لاجسٹک و عملی مدد کی اور یہی ٹل پاراچنار روڈ اس دوران مسلسل بلاک رہا، اس شاہراہ پہ ایک کانوائے کو نشانہ بنایا گیا، سامان سے بھرے بیسیوں ٹرکوں کے کانوائے کو صدہ کے قریب لوٹا گیا، سامان جلایا گیا، ٹرک ڈرائیورز کو بری طرح زد و کوب اور تشدد کرنے کے بعد ان کے جسموں کو آرے سے کاٹا گیا۔ ان کے ہاتھ، گلے، انگلیاں، بازو، حتیٰ زبان تک گدی سے کھینچی گئی اور حالیہ بگن میں کانوائے پر حملہ کی سازش کی طرح اس وقت بھی ایف سی کے کرنل توصیف نامی درندے نے سازش کا حصہ بن کر وحشت و دہشت کا کھیل کھیلا۔۔

ابھی، بھی جو کچھ بگن میں مسافرین کیساتھ ہوا، وہ دنیا کو معلوم ہے کہ کون اس کھیل کا اصل کردار ہے، کس نے سازش کی ہے، کن کے اشاروں، مدد اور پس پشت کردار سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اس کھیل کے اصل کردار اس معاملہ کو ختم کرنے کی طرف نہیں جانا چاہتے، اس آگ کو مزید پھیلانا چاہتے ہیں، جو بے گناہوں کے گھروں کو جلا رہی ہے، اس خون کو مزید بہانا چاہتے ہیں، جو بگن، تری مینگل کے اسکول، شورکو، چاشت اور پورے کرم میں بہایا گیا ہے، وہ خون جو پاراچنار سے پشاور کے راستوں میں بہایا گیا ہے، اس کی ندیاں بہانے کی سازش ہے۔ یہ جوانوں کی گلے کاٹنے کی ویڈیوز نشر کرنا دراصل ایک بار پھر اشتعال پھیلانے کی سازش اور ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے تو جرگے ناکام کیے جا رہے ہیں، اسی وجہ سے تو ایک فریق کو دستخط کرنے سے منع کرکے میدان میں اتارا گیا ہے۔

احتجاج کے مقابل احتجاجی تحریک کی دھمکیاں اور دھرنوں کے مقابل دھرنوں جیسے اقدامات کا ٹاسک پورا کروایا جا رہا ہے، اس ملک میں ہمیشہ سازشیں کرنے والوں نے بڑی مکاری اور فنکاری سے مذہب کا چورن بیچ کر تو کبھی قوم پرستی کا نام لے کر، کبھی لسانیت کے نام پر فسادیوں کو کھلے میدان دے کر تو کبھی صوبائیت کے نعرے لگوا کر اپنے اقتدار، طاقت اور قوت کو مضبوط سے مضبوط کیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں عوام ہمیشہ استعمال ہوتے آرہے ہیں، ہمیشہ ان کے ہاتھون ٹشو پیپر بن کر اس ملک کی باگ ڈور اور ریاست کو کثافت میں بدلنے کا کام لیا گیا گیا ہے۔ اس وقت اگر ہم ریاست اور اس کے کرتا دھرتا، اصل مالکان و مقتدر اداروں کا عمل و کردار دیکھیں تو اس ریاست میں پھیلی ساری کثافت کی ذمہ داری انہی پہ عائد ہوتی ہے۔

ہمارے خیال میں کرم کے مسئلہ میں صوبائی حکومت کی نااہلی، کوتاہی اور اس میں شامل حکمران طبقہ، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے، ان کا تعصب، تنگ نظری اور گھناونا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ لوگ جہاں چاہتے ہیں، ان کے مدمقابل سامنے آتے ہیں۔ بنوں اور دیگر کئی ایریاز میں پولیس سے ہڑتالیں کروا کر بھی مقابلہ کی فضا بنائی اور مقتدر اداروں کا سامنا کیا۔ اسی طرح کرم پاراچنار کے مسئلہ پر بھی ان کو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا۔ چند کارٹن دوائیں ہیلی کاپٹر سے بھیج کر فوٹو سیشن کرنے والے تو وفاقی حکمران اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی ہیں، آپ تو اس صوبہ کے حکمران ہو اور تمہاری جماعت تو گذشتہ بارہ برس سے اقتدار اعلی ٰ پہ فائز ہے۔ تمہاری جڑیں تو عوام میں ہیں، اگر کچھ ادارے تمہارے سے بالا بالا بدامنی اور گھناونا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں تو تم نے کونسا کھل کر ان کے بارے پریس کانفرنس کر دی ہے اور اصل حقائق سامنے لے آئے ہو۔

تم بھیگی بلی بن کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہو، کیا وزارت اعلیٰ پر فائز شخص کو ان وجوہات، ان کرداروں اور پس پردہ سازش سے آگاہی نہیں، پھر کیوں انہیں بے نقاب نہیں کیا۔ مطلب تم بھی اسی نظام کا حصہ ہو، جس کی باگ ڈور مقتدر لوگوں کے پاس ہے اور جن کے خلاف جلسوں اور ریلیوں میں اونچی آواز میں بولتے ہوئے تمہارے منہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد اس خطے کی جو خوبصورت فضا بنی تھی، مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار انجینئر حمید حسین جنہیں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی، ان کو شیعہ و مخالفین شیعہ نے بھی ووٹ دیئے اور ایک نئی شروعات کیں۔ اس سے خطے میں امن و سلامتی اور ترقی کی راہیں کھلنے کا امکان تھا، مگر جلد ہی دشمن نے سازش کی اور کچھ ایسے واقعات شروع کیے کہ امن ناپید ہوگیا۔

راستے غیر محفوظ ہوئے، اعتماد جاتا رہا، قتل و غارت گری کا سلسلہ چل نکلا اور نتیجہ میں آج کے حالات سامنے ہیں۔ یہ حالات بہت سے واقعات کا تسلسل اور نتیجہ ہیں، جبکہ آج کے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں وہ طاقتیں اور قوتیں جن کے ہاتھ میں رہاست کے باگ ڈور ہے، اس سے بھی بدترین حالات چاہتے ہیں اور ریاست کو کثافت و غلاظت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اہل تشیع ریاست کے کارپردازوں سے پورے ملک میں پرامن دھرنوں میں یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ قتل و غارت گری کا سلسلہ جو پہلے ہی ملک کے طول و عرض میں اپنی سفاکیت کے بہت سے مظاہرے کرچکا ہے، کب تھمے گا اور کتنوں کے خون سے اس ملک اور ارض پاک کو سیراب کیا جائے گا۔؟
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے ارض وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
خبر کا کوڈ : 1181494
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش