تحریر: سعیدہ ملائی
"ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس کی تعمیر نو کریں گے۔" یہ وہ جملہ ہے جو غزہ کے جوان جگہ جگہ مسمار ہوئی عمارتوں کی بچی کھچی دیواروں پر لکھ رہے ہیں۔ وہ عمارتیں جو غاصب صیہونی رژیم کے وحشیانہ پن اور بربریت کی نذر ہو چکی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ جنگ کے آغاز سے ہی فلسطین کے تاریخی مقامات نابود کر دینے کی کوشش کی ہے۔ ان مقامات میں تاریخی بازار، سرائے، پبلک حمام، صوفیوں کی عبادت گاہیں، قدیم مقبرے، مسجدیں، چرچ اور ایسے ثقافتی مراکز شامل ہیں جو ایوبی، مملوکی اور عثمانی دور میں فلسطینی عوام کی تاریخی زندگی کا مجسم نمونہ پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ عمارتیں غزہ کی پٹی میں اسلامی تہذیب کی تاریخ کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ 2024ء میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں آثار قدیمہ کی 200 علامتیں اور 325 مقامات نیست و نابود کر ڈالے ہیں۔
غاصب صیہونی رژیم نے غزہ پر فضائی حملوں کے دوران تاریخی عمارتوں کو گھروں کو ترجیحی بنیادوں پر نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل کا یہ کینہ توزانہ اقدام واضح طور پر بین الاقوامی قوانین جیسے 1907ء کے ہیگ قوانین کی شق نمبر 4 کا نکتہ 27 اور 56، کے خلاف ہے اور اس کا شمار جنگی جرائم میں بھی ہوتا ہے۔ ان قوانین کی روشنی میں جنگی حالات میں مذہبی، عبادتی، فنون لطیفہ کے مقامات اور علمی مراکز، فلاح و بہبود کے مراکز اور تاریخی آثار قدیمہ کو تباہ کرنا ممنوع ہے۔ اسی طرح 4 جنوری 1977ء کنونشن سے ملحقہ پروٹوکول، پروٹوکول 1 کا نکتہ 53 اور پروٹوکول 2 کا نکتہ 16 بھی تاریخی عمارتوں، فنون لطیفہ کے مقامات اور عبادت گاہوں پر حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں جو ایک طرح سے وہاں بسنے والے عوام کی روحانی اور تاریخی میراث سمجھی جاتی ہے۔
عبادت گاہیں، قدیم مساجد
صیہونی حکمران براہ راست میزائل حملوں یا بمبار طیاروں سے اب تک غزہ میں سینکڑوں مسجدیں مسمار کر چکے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے غزہ میں شہید ہونے والی قدیمی ترین مساجد درج ذیل ہیں:
مسجد السید ہاشم (بارگاہ حضرت ہاشم بن مناف): تاریخی روایات کی روشنی میں اس مسجد کا نام اس وجہ سے السید ہاشم رکھا گیا ہے کیونکہ یہاں حضرت محمد مصطفی ص کے جد امجد ہاشم بن عبد مناف کا مقبرہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صیہونی حملوں کے نتیجے میں اس مسجد کی دیواریں اور چھت تباہ ہو چکے ہیں اور وہ پوری طرح مسمار ہو جانے کے قریب ہے۔
مسجد جامع العمری: یہ مسجد غزہ کے محلے "الدرج" میں واقع ہے اور اس کا شمار غزہ شہر کی سب سے بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ یہ مسجد ایوبیان دور حکومت میں تعمیر کی گئی تھی جس کا رقبہ 4100 میٹر مربع ہے۔
اس مسجد کا قدیمی ترین حصہ بارہویں صدی میں قدیس یوحنا جامع چرچ کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ اس وقت یہ مسجد پوری طرح تباہ ہو چکی ہے اور اس کا صرف ایک مینار باقی بچا ہے جس کا اوپر والا حصہ بھی مسمار ہو چکا ہے۔
مسجد ابن عثمان: یہ مسجد 18 ویں صدی ہجری میں تعمیر کی گئی تھی جو غزہ شہر کے مشرق میں شجاعیہ محلے میں واقع ہے۔ یہ غزہ شہر کی ایک تاریخی اور قدیمی مسجد جانی جاتی ہے جو مملوکی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ ہے اور اسے احمد بن عثمان نے تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد میں سیف الدین یلخجہ کا مقبرہ بھی واقع ہے جو 1445 ہجری قمری میں غزہ شہر کا قاضی تھا۔
تاریخی چرچ
سنت پورفیریس چرچ: یہ دنیا کا تیسرا قدیمی ترین چرچ ہے جو غزہ شہر کے مشرقی حصے میں زیتون خطے میں واقع ہے۔ یہ چرچ اسرائیل کے میزائل حملے میں تباہ ہوا ہے۔ صلیبی طاقتوں نے 1150ء میں یہ چرچ تعمیر کیا تھا۔ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں اس چرچ کے اندر 7 میٹر گہرا گڑھا بن گیا ہے اور اس حملے میں عیسائی پادریوں سمیت 18 فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔
خانقاہ سنت ہیلریون: یہ خانقاہ دیر البلح کے علاقے تپہ ام عامر میں واقع ہے اور اس کی تعمیر 329 عیسوی میں کی گئی تھی۔ یہ مشرق وسطی میں عیسائیوں کی سب سے بڑی خانقاہ تصور کی جاتی ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں صیہونی جنگی طیاروں نے اسے نشانہ بنایا اور تباہ کر دیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس خانقاہ کو بچانے کے لیے قانون بھی وضع کیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
تاریخی ثقافتی مراکز
رشاد الشوا ثقافتی مرکز: یہ غزہ کے سب سے بڑے ثقافتی مراکز میں سے ایک ہے۔ اس میں تاریخی دستاویزات، قیمتی کتابیں اور تاریخی ہاتھ سے لکھے گئے نسخے موجود تھے۔ اسی طرح یہاں مختلف قسم کی ثقافتی سرگرمیاں جیسے تعلیمی کورسز، سیمینارز کا انعقاد، تھیٹر اور فلمیں وغیرہ انجام پاتی تھیں۔ یہ مرکز اس وقت صیہونی حملوں کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے۔ اس کی تعمیر 1985ء میں کی گئی تھی۔
پاشا میوزیم محل: یہ میوزیم محل جسے قصر رضوان بھی کہا جاتا ہے غزہ کے محلے الدرج میں واقع ہے اور وہ مملوکی طرز تعمیر کا واحد نمونہ ہے۔ یہ میوزیم بھی شدید خطرے کا شکار ہے۔ غاصب صیہونی فوج نے غزہ میں آثار قدیمہ اور تاریخی اشیاء کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔