تحریر: نذر حافی
کون کہتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ 1971ء کے بعد ہندوستان کی بجائے ہم مسلسل اپنے ہی عوام کو فتح کرتے جا رہے ہیں۔ یہ سانحہ بنگلہ دیش سے سیکھنے کا ہی تو نتیجہ ہے کہ اب کشمیر پر ہندوستان کے ساتھ ہمارا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ کشمیر کے وہ سارے قدرتی وسائل جنہیں ہم مطالعہ پاکستان میں پاکستان کی شہ رگ کے طور پر بطورِ دلیل پیش کیا کرتے تھے، اب تھالی میں رکھ کر ہم ہندوستان کے حوالے کرچکے ہیں۔ 1971ء کے بعد ہمارے کتنے ہی علاقے آہستہ آہستہ ہندوستان کے قبضے میں چلے گئے، اس پر مطالعہ پاکستان بھی خاموش ہے اور پاکستانی بھی۔ جو لوگ تھوڑی بہت بھی حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں، انہیں تو یہ معلوم ہے کہ طالبان حکومت کو افغانستان کی حکومت بھی تھالی میں رکھ کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی حالیہ دنوں میں شام کی حکومت بھی تھالی میں رکھ کر تکفیریوں کے حوالے کی گئی۔
دور نہ جائیں۔۔۔ ہمارے ہاں عمران خان کی جمہوری حکومت کو بھی آناً فاناً گرا کر حکومت تھالی میں رکھ کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حوالے کر دی گئی تھی۔اب اگر آپ کو وطن کی مٹی سے محبت ہے تو پھر پارہ چنار کے مسئلے کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے! ہمارے اس بچے کُھچے پاکستان پر وزیرستان کے علاقے میں 27 اور 28 دسمبر2024ء کی رات افغانستان سرحد سے طالبان اپنے پالتو دہشت گردوں کے ہمراہ حملہ آور ہوئے۔ 28 دسمبر کو منہ اندھیرے پاکستانی فوج کی چوکیوں پر دوبارہ ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کے مطابق ان حملوں میں طالبان فورسز نے پاکستان میں کئی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ سب اُس وقت ہو رہا ہے کہ جب گذشتہ کئی مہینوں سے پارہ چنار مسلسل طالبان اور تکفیریوں کے محاصرے میں ہے۔ اس محاصرے کا توڑ ہماری حکومت نے پارہ چنار کے طالبان مخالف لوگوں کو غیر مسلح کرنے میں تلاش کیا ہے۔
یاد رہے کہ پارہ چنار کے مقامی طالبان مخالف قبائل کو کئی سالوں سے غیر مسلح کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ مقامِ فکر ہے کہ نہیں کہ جو حکومتی ادارے ایک سڑک کی حفاظت نہیں کرسکتے، وہ پارہ چنار کے مقامی قبائل کو غیر مسلح کرکے اُن حفاظت کیسے کریں گے؟ یقیناً اس میں عوام کی جان و مال کی حفاظت وغیرہ والی کوئی بات نہیں۔ بات صرف پارہ چنار کو تھالی میں رکھ کر طالبان کے حوالے کرنا ہے۔ ویسے کیا طالبان کو تھالی میں رکھ کر پارہ چنار دینے میں وہ سب لوگ شریک نہیں، جو طالبان کو قومی دھارے میں لانے اور انہیں سینے سے لگانے کی باتیں کرتے ہیں۔؟ اسی لئے احسان اللہ احسان جیسے کئی کرداروں کو ہم سینے سے لگا چکے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آئے روز پاکستانی فورسز کے جوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ ہماری ریاست کے لئے طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پاک فوج کے جوان ہوں یا پارہ چنار کے سویلین اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔
اب کی دفعہ پارہ چنار میں جہاں سینکڑوں بچے بھوک و پیاس اور دوائیوں کی قلت کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں، وہیں ملک بھر سے کالعدم تنظیموں کے سربراہ بھی تکفیریوں و طالبان کو شہ دینے کیلئے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں اور طالبان تو ویسے بھی ہمارے قیمتی ایسٹس ہیں، چنانچہ اس موضوع کو یہیں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بنگالیوں کے قتلِ عام کے وقت بھی البدر اور الشمس جیسے جتھوں نے یہی کردار ادا کیا تھا۔ برادر کُشی کی یہ رسم ماضی کی طرح اس وقت پارہ چنار میں جاری ہے۔ آئیے کچھ دیر کیلئے ایک فرزندِ پارہ چنارکی بات پر توجہ دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے امن معاہدے کی افواہوں کے بعد گذشتہ روز طالب الھدیٰ نے پارہ چنار میں اپنی فیملی سے رابطہ کیا۔ وہ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کیسا معاہدہ اور کیسا جرگہ! محصور لوگوں کو سردی، بھوک و پیاس اور دوائیوں کے قحط کے ساتھ جس بے دردی سے قتل کئے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس کی تاریخ میں کہیں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
یہ ایک طالب الھدیٰ کا قصّہ غم نہیں بلکہ پارہ چنار کے ہر گھر کی یہی حالت ہے۔ پارہ چنار کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بات ایک ہی کہ اربابِ اختیار امریکہ کو پارہ چنار میں اڈّے دیں یا طالبان کو تھالی میں رکھ کر پارہ چنار دیں۔ جب پارہ چنار سے مقامی افراد کا انخلا ہوگا تو تبھی مقتدر حلقوں کیلئے ایسے کسی ایجنڈے پر عمل ممکن ہوگا۔ لوگ معترض ہیں کہ پارہ چنار کے حوالے سے یہ کوششیں گذشتہ کئی سالوں پر محیط ہیں۔ لوئرکرم اور اپر کرم میں جو بچے شہید ہوگئے، وہ تو ہوگئے، حکومت نے کون سا ان کا قصاص لینا ہے۔ اب باقی جو لوگ محاصرے میں دم توڑ رہے ہیں، اُن کے حوالے سے حکومت کی ذمہ داری تو صرف آٹا اور ڈسپرین و پیراسیٹامول بھیجنا تھی، سو یہ سب بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ روزانہ کسی نہ کسی سیاستدان کا دکھ بھرا بیان بھی آجاتا ہے۔ اب بھلا اس سے زیادہ پارہ چنار والوں سے کیا ہمدردی کی جا سکتی ہے۔؟
پارا چنار کے مقامی باشندے سخت ناراض ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں مارنے اور پارہ چنار خالی کرانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ شنید ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے بھی کسی نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، آپ مزید بچے پیدا کر لیں۔ ہماری دانست میں جاری ملکی صورتحال خصوصاً پارہ چنار کے مسئلے کو سمجھنے کیلئے یہ مثال اچھی رہے گی۔ ایک بھیڑ کا بچہ کسی نہر سے پانی پی رہا تھا۔ بھیڑیئے نے دیکھا تو اسے کہا کہ تم نے گذشتہ سال مجھے گالیاں دی تھیں۔ بھیڑ کے بچے نے کہا کہ گذشتہ سال تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس پر بھیڑیا چلایا کہ پھر وہ تمہارا بھائی ہوگا، اُس نے یہ کہا اور یہ کہتے ہی بھیڑ کے بچے کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔۔۔
ہمارا صاحبانِ اقتدار و اختیار سے کیا لینا دینا، ہم تو عوام کی خدمت میں بس یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ دراصل ایک ہی چکی کے دو پاٹ ہیں، ان کے بیچ میں باری باری ہم سب کو پسنا تو پڑے گا۔ عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کہیں بھی دلیل، منطق اور شعور سے کام نہیں لیتی۔۔۔ جب پارہ چنار چاہیئے تو پھر چاہیئے۔۔۔ آپ ہزار دلائل لائیں۔۔۔ آپ کو پارہ چنار تھالی میں رکھ کر ہی پیش کرنا ہوگا۔۔۔ کون کہتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ 1971ء کے بعد ہندوستان کی بجائے ہم مسلسل اپنے ہی عوام کو فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔کاش! ہم نے تاریخ سے یہ بھی سیکھا ہوتا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اُن کی تلافی کرنے سے انسان کمزور نہیں ہوتا بلکہ اُس کے شعور کی پختگی کا اظہار ہوتا ہے۔