تحریر: سید رضی عمادی
عراقی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ شام کے ساتھ اس ملک کی سرحد پر امریکیوں کی بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت جاری ہے اور امریکہ عراق سے اپنے ساز و سامان کو شام کے اڈوں پر منتقل کر رہا ہے۔ ایک عراقی سکیورٹی ذرائع نے جمعرات کو اعلان کیا کہ 50 امریکی فوجی ٹرکوں کا ایک کانوائے عراق اور شام کے درمیان الولید سرحدی کراسنگ میں داخل ہوا اور الحسکہ میں اپنے غیر قانونی فوجی اڈوں کی طرف جا رہا ہے۔ اس عراقی سکیورٹی ذرائع نے مزید کہا کہ اس قافلے میں بھاری ساز و سامان اور فوجی گاڑیاں شامل تھیں اور امریکی ہیلی کاپٹر اور ڈرون اس قافلے کی فضا سے حفاظت کر رہے تھے۔ اہم سوال یہ ہے کہ واشنگٹن کی اس فوجی نقل و حرکت کے مقاصد کیا ہیں۔؟ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا سب سے اہم ہدف شام میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط و زیادہ کرنا ہے۔
اسد حکومت کے زوال اور اس سلسلے میں امریکہ نے جو کردار ادا کیا، اس کے بعد شام میں خاص طور پر اس ملک کے شمالی علاقوں میں وسیع تر امریکی فوجی موجودگی کے لیے میدان تیار ہوگیا ہے۔ ادھر واشنگٹن کو دمشق کے نئے حکمرانوں کی جانب سے شامی فوج کے اڈوں میں مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے لیے ہری جھنڈی مل گئی ہے۔ بعض عراقی گروہوں اور اس ملک کی حکومت کی طرف سے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی ضرورت پر زور دینے کی وجہ سے، واشنگٹن اپنی فوجوں کو شام منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ موقع شامی حکومت کے زوال سے پیدا ہوا ہے۔ امریکا کا ایک اور ممکنہ ہدف شام میں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی کی صورت میں شامی کردوں کی حمایت کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس وقت شامی کرد اس ملک میں امریکہ کے سب سے اہم اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ بشار الاسد کے دور میں امریکہ کرد ملیشیا کے ذریعے شام کا تیل اسمگل کرتا تھا۔
عراق اور شام کی سرحد پر امریکی فوجی نقل و حرکت میں اضافے کا ذکر کچھ لوگوں اور خبری ذرائع نے پہلے بھی کیا تھا۔ سیریئن ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گذشتہ دنوں امریکہ نے فضائی اور زمینی راستے سے شامی کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں فوجی اور رسد کا سامان بھیجا ہے۔ امریکی فوج کردستان کے علاقے کے راستے فوجی سامان حسکہ اور قامیشلو کے شہروں تک پہنچا چکی ہے اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق امریکی فضائیہ نے ایک ٹرانسپورٹ طیارہ بھی شام کے "خراب الجیر" ہوائی اڈے پر بھیجا ہے۔ امریکی شامی کردوں کے زیر کنٹرول علاقے شام میں اس ملک کی افواج کے لیے سامان اور رسد فراہم کرتے ہیں۔ شامی کردوں کے امور کے ماہر رمضان کریم نے بھی کرد مسائل پر بات چیت کے لیے منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے عراق میں تعینات اپنی اسپیشل فورسز کا ایک گروپ کوبانی میں ترکی اور شامی کردوں کے درمیان موجودہ جنگ بندی کی نگرانی کے لیے بھیجا ہے۔
اس کرد صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ کوبانی امریکہ کے لیے سرخ لکیر بن گیا ہے اور امریکہ نے ترک فوج کی نقل و حرکت اور فری آرمی کو اس علاقے پر قبضہ کرنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ امریکہ کا ایک اور ہدف مغربی ایشیائی خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط بنانا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے پاس کچھ عرب ممالک کے علاوہ بحرین اور قطر جیسے ممالک میں بڑے بحری اور فضائی اڈے موجود ہیں، لیکن واشنگٹن عراق اور شام جیسے ممالک میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک عراقی سکیورٹی ذریعے نے اعلان کیا کہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن عین الاسد اڈے سے مغربی ایشیا میں ایک نئی بریگیڈ بھیجنے کا ارادہ کر رہا ہے، جو خطے میں امریکی افواج کو دوبارہ تعینات کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ اگر امریکہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے حالیہ برسوں میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا فوجی اقدام سمجھا جائے گا۔