انٹرویو: معصومہ فروزان
مزاحمت اور حزب اللہ کے بارے میں ہمارا نظریہ آفاقی ہے۔ یہ ایسی ثقافت اور فکر ہے، جو کسی خاص وقت اور جگہ تک محدود نہیں ہے۔ "مزاحمت کی ثقافت" سے مراد باطل دھڑے کے خلاف جنگ میں حق کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، جو پوری تاریخ میں جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن یقیناً یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ دوسری طرف ہتھیار ڈالنے میں مزید مشکلات ہیں۔ قرآنی حکم کے مطابق جو بھی اس راہ میں مشقت برداشت کرے گا، اس کے لئے اجر عظیم ہے۔ یہ ایک نیک عمل ہے۔ اگر ہم دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور اس کے بعد جو سختیاں آئیں گی، خدا کے ہاں اس کا کوئی اجر نہیں۔ (
ذٰلِکَ بِاَنَّهُم لا یُصیبُهُم ظَمَاٌ وَ لا نَصَبٌ وَلا مَخمَصَةٌ فی سَبیلِ اللهِ وَلایَطَئونَ مَوطِئًا یَغیظُ الکُفّارَ وَ لا یَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَیلًا اِلّا کُتِبَ لَهُم بِه عَمَلٌ صٰلِح.سوره توبه/۱۲۰)
معروف صحافی اور بین الاقوامی مسائل کے تجزیہ کار خیال مؤذن نے "
اسلام ٹائمز" کے رپورٹر کے سوال کے اس جواب میں کہ ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ "حاج قاسم" کی شہادت کو پانچ سال ہوگئے ہیں اور مزاحمتی کمانڈروں اور قائدین جیسے "سید حسن نصراللہ"، "اسماعیل ہنیہ"، "یحییٰ السنوار"، "ہاشم صفی الدین" جیسے مزاحمت کاروں کی شہادت سے مقاومت کمزور ہوچکی ہے، آپ کیا کہتے ہیں اور آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت اب بھی زندہ ہے۔؟ خیال مؤذن کا کہنا تھا "حاج قاسم سلیمانی" اور دیگر مزاحمتی رہنماؤں جیسے "سید حسن نصراللہ"، "اسماعیل ہنیہ"، "یحییٰ السنور" اور "سید ہاشم صفی الدین" کی شہادت نے نہ صرف مزاحمت کو دھچکا نہیں پہنچایا، بلکہ یہ شہادتیں استقامت کی طاقت اور مقاومت کی علامت بن گئی ہیں۔
یہ لوگ صرف انفرادی کردار نہیں تھے بلکہ ایسا نظریہ تھے، جسے فنا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان مجاہدین کی شہادت نے مزاحمت کو کمزور نہیں کیا بلکہ مجاہدین کی ایک نئی نسل کو متاثر کیا ہے، جو اپنا راستہ جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ عظیم تحریکیں افراد پر منحصر نہیں ہوتیں۔ مزاحمت صرف افراد کا گروہ نہیں ہوتا بلکہ لاکھوں لوگوں کی اجتماعی امنگ اور ہدف ہوتا ہے۔ ان قائدین کی شہادت نے جدوجہد کو نہ صرف روکا نہیں بلکہ اسے تقویت بخشی ہے۔ آج ان قربانیوں کی بدولت مزاحمت نئے علاقوں میں پھیل چکی ہے اور اس میں نہ صرف مغربی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر حصے بھی شامل ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مزاحمت کمزور ہوگئی ہے، انہوں نے نظریات اور ایمان کی طاقت کو صحیح نہیں سمجھا ہے۔ مزاحمت پر لگنے والی ہر ضرب اس کے دشمنوں کے لیے اسٹریٹجک شکست بن جاتی ہے۔
مقاومت کے قائدین کے قتل نے دشمنوں کو جیت نہیں دی بلکہ مزاحمت کو مزید منظم اور آگے بڑھا دیا ہے۔ آج مزاحمت نہ صرف ایک نظریہ ہے بلکہ ایک ایسا نیٹ ورک بھی ہے، جو عسکری، سیاسی، میڈیا اور اقتصادی شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اب یہ مسئلہ یمن، غزہ، لبنان، شام، عراق اور اس سے آگے خطے میں واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ یہ ممالک اور قومیں نہ صرف اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں بلکہ ایک کثیر قطبی، یعنی ملٹی پولر دنیا بنانے کے لیے بھی لڑ رہی ہیں۔ ایسی دنیا جہاں تسلط اور جبر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مزاحمت ایک زندہ چیز ہے، جو ہر ضرب کے ساتھ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے اس تجزیہ کار نے آخر میں کہا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو مزاحمت کی طاقت پر شک کرتے ہیں، انکے لئے آسان جواب یہ ہے کہ دشمنوں کو دیکھو۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی کبھی اتنے کمزور اور بے بس نہیں رہے۔ اگر مزاحمت واقعی کمزور ہوتی تو یہ اتنی گھبراہٹ اور عجلت میں اسے دبانے کی کوششیں نہ کرتے۔ مزاحمت قوموں کی روح ہے اور جب تک جبر موجود ہے، یہ جذبہ زندہ رہے گا۔ "خیال مؤذن" نے "حاج قاسم" کے الفاظ سے اپنی گفتگو ختم کی۔ شہید قاسم سلیمانی کہتے تھے، وہ مجھے مار سکتے ہیں، لیکن میرے مقصد کو کبھی تباہ نہیں کرسکتے۔ یہ ہدف محفوظ ہاتھوں کے سپرد کیا گیا ہے اور دشمن کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے۔