تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
2024ء کا آخری سورج ڈوب گیا۔ آخری روز کی آخری خبر ملاحظہ کیجئے " بنوں میں دھماکا، اے ایس آئی سمیت 5 اہلکار زخمی۔" دمِ تحریر دہشت گردوں کی طرف سے پاراچنار کا محاصرہ اور ملک بھر میں اس محاصرے کے خلاف مختلف انداز میں احتجاج جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سال 2024ء میں دہشت گردوں کے خلاف انسٹھ ہزار سے زائد آپریشنز کیے، لیکن پاراچنار جانے والی روڈ کو نہیں کھول سکے۔ اس سال پاراچنار میں تین سو سے زائد بچوں کی شہادتیں بھی ہماری ملکی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کہیں پر بھی ظلم کسی حادثے کی مانند نہیں ہوتا بلکہ ظالموں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ثناء خوانِ حکومتِ سندھ کو خبر ہونی چاہیئے کہ 2024ء کے آخری دن پاراچنار کے مظلومین کی حمایت میں جاری احتجاج پر سندھ پولیس کی طرف سے کراچی میں مظاہرین کے خلاف شدید لاٹھی چارج ہو رہا ہے۔ اس سال ہم نے اہم ایس سی او کانفرنس کی میزبانی بھی کی۔ اس کانفرنس میں تاجکستان، بیلاروس، چین، روس، قازقستان اور کرغزستان کے وزرائے اعظم جبکہ ایران کے نائب صدر اور بھارت کے وزیر خارجہ سمیت دیگر ممالک کے اہم اور سرکردہ اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اسی طرح پاکستانی حکام نے تجارت کے فروغ کیلئے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے تحت بہت کچھ کیا، جس کے ثمرات حکام ِبالا تک تو پہنچ ہی چکے ہونگے، تاہم اس سال بھی حسبِ سابق عوام کیلئے ٹریفک حادثات کی بھرمار، رشوت و کرپشن کی شرح، اشیائے خوردونوش کی مہنگائی، بے روزگاری، فقر اور بدبختی میں کسی قسم کی کمی قابلِ مشاہدہ نہیں۔
ملک میں آخری روز بھی کالعدم تنظیموں نے پاراچنار کے مقامی افراد کو محاصرہ کرکے قتل کرنے کیلئے ساٹھ مقامات پر دھرنے دینے کا اعلان کئے رکھا۔ دوسری طرف ان محصور لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کیلئے احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ پاراچنار میں غذا اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچوں پر رحم کیا جائے، لوگوں کو خوراک اور ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے، نیز مسافر بسوں کو تحفظ دیا جائے اور دورانِ سفر مسافروں کو قتل کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کی جائے، مقتولین کے ورثاء کو معاوضے کی فراہمی اور جرگوں کے ذریعے زمینی تنازعات کا حل بھی ان مطالبات میں شامل ہے۔
ملک میں دہشت گردوں پر تو کوئی روک ٹوک نہیں، البتہ ان کے خلاف حکومتی دعووں کے مطابق آپریشن بھی ہو رہے ہیں اور پاراچنار کا محاصرہ بھی ختم نہیں ہو رہا، دہشت گردوں کا کوئی مذہب بھی نہیں اور پاراچنار کے اہلِ تشیع کے خاتمے کیلئے ان کے مظاہرے، تقریریں نیز پریس کانفرنسیں بھی جاری ہیں۔ دہشت گرد ملک دشمن بھی ہیں اور پاراچنار کے جرگوں پر اثرانداز بھی۔ ملکی میڈیا اور حکومتی ادارے اہالیانِ پاراچنار کی مدد کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور پاراچنار میں تکفیری عناصر کی منہ زوری اور درندگی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ریاستی ادارے پاراچنار کے عوام کی مظلومیت کو زبانی طور پر تسلیم بھی کر رہے ہیں اور مظلوموں کیلئے آواز بند کرنے والوں پر لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ اور تشدد بھی جاری ہے۔ یہ سب جاری ہے اور یونہی جاری رہے گا۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ابھی پولیس نے پاراچنار کے مظلومین کیلئے اٹھنے والی ایک مضبوط آواز علامہ حسن ظفر نقوی پر بدترین تشدد کرکے انہیں شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے درمیان میں ہم سب کیلئے مثبت پیغام یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستانی عوام اپنے وطن کی مٹّی سے محبت کرتے ہیں۔ خصوصاً پاراچنار کے لوگ اپنی مٹّی کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے پر ہرگز راضی نہیں۔ اس ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ ہی ہم جہاں غزہ، کشمیر، فلسطین اور پاراچنار کے محصور لوگوں کی ہمت اور جرائت کو سلام پیش کرتے ہیں، وہیں پر وہ سب لوگ سلام کے لائق ہیں، جو جہاں بھی ہیں، اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور مظلوموں کے حامی ہیں۔
وطن سے محبت کرنے والوں خصوصاً پاراچنار کے مظلوموں کیلئے ہمارا اس سال کا آخری پیغام یہی ہے کہ خاموش رہ کر زبان کو گُدّی سے کھنچوانے سے بہتر ہے کہ بول کر سر کٹوا لیا جائے۔ یاد رکھئے! نوشتہ تقدیر کے مطابق جو کمزوروں پر رحم نہیں کرتا، وہ بالآخر کمزوروں کے رحم و کرم کا محتاج ہو کر رہتا ہے۔ کہیں پر بھی ظلم کسی حادثے کی مانند نہیں ہوتا بلکہ ظالموں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اربابِ اقتدار کیلئے بھی ہمارا یہ مشورہ مفت ہے کہ ملکی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کو فتنہ و فساد سے بچایئے اور یہ جان لیجئے کہ سب سے بڑا فتنہ و فساد یہ ہے کہ کسی پر ظلم کرنے کیلئے قانون اور دین کو استعمال کیا جائے۔