0
Monday 6 Jan 2025 08:30
رہبر معظم کی نگاہ میں

زندگانی امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام پر تحقیقی کام کی ضرورت و اہمیت

زندگانی امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام پر تحقیقی کام کی ضرورت و اہمیت
تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی

مقدمہ
 تاریخ اسلام ناب محمدی کے تین عظیم امام، امام محمد تقی (ع)، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع)، اسلامی علوم و معارف کی توسیع اور تحفظ میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان ائمہ کی زندگیاں علم و عمل کا نمونہ اور اسلامی تعلیمات کی اعلیٰ مثال ہیں، لیکن رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بقول ان عظیم ہستیوں کی حیات پر تحقیقی کام کی بہت کمی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "در تاریخ‌ نگاری ما، در کتاب‌ نویسی ما، حتّی در منبرهای ما، از این سه بزرگوار خیلی کم یاد میشود و تحقیق میشود و کار میشود۔ خیلی بجا است اگر چنانچه کسانی در زمینه‌ی زندگی این سه بزرگوار کار کنند، تحقیق کنند، بنویسند." (ہمارے تاریخ نویسی کے میدان میں، ہماری کتابوں میں، حتیٰ کہ ہمارے منبروں پر بھی ان تین عظیم ہستیوں کا بہت کم ذکر ہوتا ہے اور ان پر تحقیق اور کام کم کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ کچھ لوگ ان تین بزرگواروں کی زندگی پر کام کریں، تحقیق کریں اور لکھیں۔)

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اس بیان میں امام علی نقی (ع) کی وصایت کے واقعے کو تاریخی اور حدیثی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس تجزیئے میں درج ذیل نکات نمایاں ہیں:
1۔ تاریخ اور حدیث کا متوازن مطالعہ ضروری ہے
رہبر معظم نے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کی کہ بعض لوگ ائمہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، لیکن احادیث کا مطالعہ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ ائمہ کے حقیقی پیغام اور زندگی کے اہم پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: "بعضی تاریخ خوانده‌اند، [امّا] حدیث نخوانده‌اند و از کلمات ائمّه در این روایات مطّلع نیستند؛ عیب بزرگ کار اینها این است." (کچھ لوگ تاریخ پڑھ چکے ہیں، لیکن احادیث نہیں پڑھی ہیں اور ائمہ کے کلمات سے ان روایات میں آگاہ نہیں ہیں۔ ان کا بڑا نقص یہی ہے۔) یہ جملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ائمہ کے بارے میں صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے صرف تاریخی حقائق کافی نہیں ہیں؛ احادیث، ان کے اقوال اور ان کی عملی زندگی کی گہرائی کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔

2۔ احادیث کے ذریعے تاریخ کا فہم
رہبر معظم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ائمہ کی تاریخ کو سب سے بہتر احادیث کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ ان احادیث میں ان کی زندگی کے اہم واقعات، ان کے ہجرت کے اسباب اور ان کے امامت کے اعلان کی تفصیلات موجود ہیں۔ "تاریخ ائمّه را هم بیش از همه، از درون خود این احادیث میشود فهمید که در زندگی اینها، در جابه‌جایی اینها، در اعلام وصایت اینها، در هر کدامشان چه اتّفاقی افتاده." (ائمہ کی تاریخ کو سب سے زیادہ انہی احادیث کے اندر سے سمجھا جا سکتا ہے، جو ان کی زندگی، ان کی نقل مکانی، ان کی وصایت کے اعلان اور ان کے ہر معاملے میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔)

شیعہ فکر کی ترقی اور امام محمد تقی (ع)
امام محمد تقی (ع) اپنی کم عمری کے باوجود علم و حکمت کے عظیم خزانے تھے۔ ان کی امامت کے دور میں بغداد شیعہ علمی مرکز بن چکا تھا۔ رہبر معظم نے اس دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: "بغداد در دوره‌ی حضرت هادی و حضرت جواد اصلاً مرکز شیعه است. فضل‌ بن‌ شاذان میگوید من اوّل که وارد بغداد شدم، داخل این مسجد پُر بود از محدّثین شیعه که حلقه‌ های روایتی داشتند و [روایت] نقل میکردند." (حضرت ہادی اور حضرت جواد کے دور میں بغداد بالکل شیعہ کا مرکز تھا۔ فضل بن شاذان کہتے ہیں کہ جب میں پہلی بار بغداد آیا تو دیکھا کہ مسجد شیعہ محدثین سے بھری ہوئی تھی، جو علمی حلقے قائم کیے ہوئے تھے اور روایات نقل کر رہے تھے۔) یہ ترقی امام محمد تقی (ع) کی فکری رہنمائی اور ان کے شاگردوں کی علمی محنت کا نتیجہ تھی۔

امام علی نقی (ع) اور زیارت جامعہ کبیرہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اس بیان میں زیارت جامعہ کبیرہ کی گہرائی اور اس کے منفرد معارف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ زیارت جامعہ کبیرہ کو امام علی نقی (ع) کی جانب سے شیعہ عقائد کو فکری بنیادوں پر مضبوط کرنے کا ایک عظیم تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ رہبر معظم فرماتے ہیں: "اگر تلاش حضرت هادی (علیه السّلام) نبود، ما امروز زیارت جامعه را نداشتیم و آن معارف منحصر به‌ فردی که در این زیارت وجود دارد، در اختیار شیعه نبود." (اگر حضرت ہادی (ع) کی کوششیں نہ ہوتیں تو آج ہمارے پاس زیارت جامعہ موجود نہ ہوتی اور وہ منفرد معارف جو اس زیارت میں موجود ہیں، شیعہ کے لیے میسر نہ ہوتے۔)

1۔ زیارت جامعہ: اہل بیت (ع) کی فضیلت کا خلاصہ
زیارت جامعہ کبیرہ، اہل بیت (ع) کی عظمت و فضیلت کا ایک جامع بیان ہے۔ یہ زیارت اہل بیت (ع) کے مقام کو قرآن کریم اور الہیٰ تعلیمات کے تناظر میں بیان کرتی ہے۔ اس زیارت کی منفرد خصوصیات میں یہ شامل ہیں کہ یہ اہل بیت (ع) کے علم، تقویٰ، اور الہیٰ مقام کو واضح کرتی ہے۔

2۔ امام علی نقی (ع) کی علمی بصیرت
رہبر معظم کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ زیارت جامعہ کبیرہ جیسا علمی شاہکار صرف امام علی نقی (ع) جیسی شخصیت ہی پیش کرسکتی تھی۔ "آن معارف منحصر به‌ فردی که در این زیارت وجود دارد، در اختیار شیعه نبود." (وہ منفرد معارف جو اس زیارت میں موجود ہیں، شیعہ کے لیے میسر نہ ہوتے۔) یہ معارف اس بات کا ثبوت ہیں کہ امام علی نقی (ع) قرآن اور اہل بیت (ع) کی تعلیمات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ زیارت جامعہ میں قرآنی آیات کا گہرا استعمال اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اہل بیت (ع) کے مقام کو سمجھنے کے لیے قرآن کو بنیاد بنایا جانا چاہیئے۔

3۔ اہل بیت (ع) کے مقام کی حفاظت
زیارت جامعہ کبیرہ ایک فکری اسلحہ ہے، جو اہل بیت (ع) کے مخالفین کے بے بنیاد اعتراضات کا علمی جواب دیتی ہے۔ رہبر معظم کے مطابق، اگر امام علی نقی (ع) کی محنت نہ ہوتی تو یہ قیمتی معارف آج شیعہ عقائد کا حصہ نہ ہوتے۔

4۔ وقت کی ضرورت: زیارت جامعہ پر تحقیق
رہبر معظم کے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیارت جامعہ پر مزید تحقیق، تشریح اور تدریس کی ضرورت ہے۔ یہ زیارت نہ صرف ایک دعا ہے بلکہ ایک فکری نصاب ہے، جس کے ذریعے شیعہ عقائد اور اہل بیت (ع) کی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔

امام علی نقی (ع) کی وصایت کا واقعہ: تحقیق کی ایک مثال
رہبر معظم نے امام علی نقی (ع) کی وصایت کے واقعے کو خاص طور پر ذکر کیا، جو کافی جیسی معتبر کتب میں بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف امام کی امامت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ اس میں موجود مباہلے اور دیگر اہم مباحث بھی اسلامی تاریخ میں گہری تحقیق کا تقاضا کرتی ہیں۔ "خود همین اعلام وصایت حضرت هادی یک داستان عجیبی دارد که لابد در کافی ملاحظه کرده‌ اید که احمد بن محمّد بن عیسیٰ آنجا نقش دارد و کار دارد و حرف دارد و بحث به مباهله میکشد و مانند اینها. اینها خیلی مهم است." (حضرت ہادی (ع) کی وصایت کا اعلان ایک عجیب واقعہ ہے، جسے یقیناً آپ نے کافی میں ملاحظہ کیا ہوگا، جہاں احمد بن محمد بن عیسیٰ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور معاملہ مباہلے تک جا پہنچتا ہے۔ یہ تمام امور انتہائی اہم ہیں۔) یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام علی نقی (ع) کی امامت کے اعلان کے دوران پیش آنے والے حالات اور ان کے ساتھ وابستہ افراد کی تفصیلات، شیعہ فکر کی تاریخی اور فکری بنیادوں کو سمجھنے میں کس قدر مددگار ہوسکتی ہیں۔

امام حسن عسکری (ع) کی فکری جدوجہد
امام حسن عسکری (ع) کا دور عباسی حکومت کی سختیوں کا دور تھا، لیکن انہوں نے علم و تقویٰ کے ذریعے شیعہ عقائد کو محفوظ رکھا۔ رہبر معظم نے ان ائمہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فرمایا: "این بزرگوارها تلاش خیلی زیادی کردند." (ان بزرگواروں نے بہت زیادہ محنت کی۔)

تحقیقی خلا اور رہبر معظم کی تاکید
رہبر معظم نے ان ائمہ پر تحقیقی کام کی کمی کو شیعہ علمی روایت کا بڑا نقصان قرار دیا اور فرمایا: "بعضی تاریخ خوانده‌اند، [امّا] حدیث نخوانده‌اند و از کلمات ائمّه در این روایات مطّلع نیستند؛ عیب بزرگ کار اینها این است. تاریخ ائمّه را هم بیش از همه، از درون خود این احادیث میشود فهمید." (کچھ لوگ تاریخ پڑھ چکے ہیں، لیکن احادیث نہیں پڑھی ہیں اور ائمہ کے کلمات سے ان روایات میں آگاہ نہیں ہیں۔ ان کا بڑا نقص یہی ہے۔ ائمہ کی تاریخ کو سب سے زیادہ انہی احادیث کے اندر سے سمجھا جا سکتا ہے۔)

ادب اور فنون لطیفہ میں ان ائمہ کی عکاسی
ادب اور فنون لطیفہ کے ذریعے ان ائمہ کی زندگی کو مؤثر انداز میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رہبر معظم فرماتے ہیں: "کارهای هنری باید بکنند ان‌شاءالله." (فن کے میدان میں بھی کام کرنا چاہیئے، ان شاء اللہ۔)

نتیجہ
امام محمد تقی (ع)، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے ادوار شیعہ تاریخ کے درخشاں باب ہیں، مگر ان پر تحقیق اور کام کی کمی آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ رہبر معظم کی ہدایات ہمیں ان ائمہ کی حیات اور خدمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔ ان کی تعلیمات اور معجزات کو ادب، تحقیق اور فنون لطیفہ کے ذریعے عام کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ امام محمد تقی (ع)، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کی زندگی شیعہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں شیعہ عقائد کی حفاظت اور ترویج کی۔ ان ائمہ نے عباسی حکومت کی سختیوں کے باوجود اپنے علم، حکمت اور قیادت سے شیعہ فکر کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

امام محمد تقی (ع) نے بغداد کو شیعہ علمی مرکز بنایا، جہاں اہل علم و حدیث نے ان کے زیرِ سایہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ امام علی نقی (ع) نے زیارت جامعہ کبیرہ جیسی بے مثال دعا کے ذریعے اہل بیت (ع) کی عظمت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا اور شیعہ عقائد کو فکری مضبوطی عطا کی۔ امام حسن عسکری (ع) نے اپنی مختصر مگر بابرکت زندگی میں شیعہ امت کو عباسی حکمرانوں کی سازشوں اور پابندیوں سے بچاتے ہوئے اہل بیت (ع) کے حقیقی پیغام کو محفوظ رکھا۔ ان تینوں ائمہ کی مشترکہ کوششوں سے شیعہ فکر و عمل کو وہ بنیادیں ملیں جن پر آج بھی امت کا عقیدہ استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مطابق، ان ائمہ کی زندگی اور ان کے علمی و عملی کارناموں پر تحقیق اور تجزیئے کی شدید ضرورت ہے۔ ان ائمہ کی حیات طیبہ اور خدمات کو سمجھنے کے لیے تاریخ اور حدیث کا متوازن مطالعہ اہم ہے، تاکہ ان کے کردار اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ زیارت جامعہ کبیرہ جیسے علمی شاہکار، جو امام علی نقی (ع) کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں، شیعہ عقائد کو مضبوط کرنے کے لیے ایک انمول اثاثہ ہیں۔ ادب اور فنون لطیفہ کے ذریعے ان ائمہ کے کردار کو عام کرنا اور ان کی زندگی پر مزید کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ ان کے پیغام کو آنے والی نسلوں تک منتقل کیا جا سکے۔ ان ائمہ کی حیات اور تعلیمات نہ صرف شیعہ امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1182658
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش