0
Monday 30 Dec 2024 13:30

آیت اللہ محسن علی نجفیؒ، ایک عہدساز شخصیت

آیت اللہ محسن علی نجفیؒ، ایک عہدساز شخصیت
تحریر: اشرف سراج گلتری
ایم.فل سکالرجامعہ المصطفی قم المقدسہ ایران

آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ ایک اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک مُفسِّر، مترجم، محقق اور مؤلف تھے، بلکہ آپ کے وجود میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا۔ آپ کا وجود جس طرح ظاہری طور پر اعلی صفات سے مزین تھا، معنوی طور پر اس سے کئی گنا زیادہ اعلی صفات کے حامل تھے۔ آپ طلاب کو اللہ پر توکل، اہل بیت علیہم السلام، مخصوصا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے مُتَوسّل ہونے کی زیادہ تلقین فرماتے تھے اور خود بھی توکل کے اعلی درجے پر فائز تھے اور اہل بیت علیہم السلام سے ہمیشہ متوسل رہتےتھے۔ حسن اخلاق میں بھی آپ بے مثال تھے کہ جس شخص کو بھی آپ کی شاگردی یا قربت حاصل ہوتی تھی آپ کے عجزوانکساری، ہمدردی اور سبق آموز نصیحتوں کی وجہ سے خود بخود آپ کے دلدادہ بن جاتا تھا۔
 
اجتماعی اور ملکی مسائل میں ملت تشیع پاکستان کی تمام شخصیات، تنظیموں، انجمنوں اور اداروں کو ملکی سطح کے اہم مسائل اور معاملات پر یکجاء کرنےکےلئے آپ کا وجود محور کی حیثیت رکھتا تھا۔ برصغیر پاک وہند میں آپؒ کا شمار علمی اور ملی شخصیات میں ہوتا تھا۔ آپ کی شخصیت صرف ایک جہت سے نہیں بلکہ کہیں جہتوں سے جامع ترین شخصیت تھی۔ آپ علمی لحاظ سے ایک عظیم مرتبہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ ملت تشیع کی تعلیمی، اقتصادی، سیاسی مشکلات کے حل اور فلاح بہبودی کےلئے نہ صرف نظریہ رکھتے تھے بلکہ علمی طور پر اقدام کرتے تھے۔ ہزاروں یتیموں، غریبوں، بیواوں اور سفید پوش افراد کی کفالت آپ اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے جو آج بھی الحمداللہ علامہ شیخ انوری علی نجفی کے ہاتھوں جاری وساری ہے۔
 
یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ استاد محترم آیت اللہ محسن نجفی‌ کے ان اوصاف کو بیان کریں جو ہم نے خود ان کے دروس، نصیحت آمیز گفتگو اور ملاقاتوں سے اخذ کئے ہیں، جو ہمارے لیے ناقابل فراموش بھی ہیں۔
 
آپ کی علمی شخصیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔ یقینا استاد محترم آیت اللہ محسن علی نجفی ؒ کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔ بندہ حقیر، علوم قرآن اور تفسیر قرآن کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے یہ بات بَبانْگِ دُہل کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان میں اب تک کے قرآن کریم کے کیے جانے والے تراجم اور تفاسیر میں سے علمی اور قابل فہم آپ ہی کا ترجمہ اور تفسیر ہیں۔ آپ کی علمی خدمات کے لئے یہی کافی ہے آپ کی علمی شخصیت اور آپ کی تفسیر پر جامعہ المصطفی ایران کے ایم اے (کارشناسی) اور ایمفل (ارشد) کے طلاب اب تک سینکڑوں تھسیز لکھ چکے ہیں۔
 
آپ کی تفسیر میں وسعتِ نظری، بلند خیالی، نقطہ نگاہ میں گہرائی جیسی اوصاف کا جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، مخصوصا آپ کی تفسیر کا مقدمہ علوم قرآن کے طلاب کےلئے نہایت مفید ہے، آپ کی دیگر کتابیں اور ترجمے بھی محض ایک مکتب فکر کے نقطہ نگاہ کی نمائندہ نہیں بلکہ اسلامی عقائد کی توضیح و اثبات، علم الکلام اور اسلامی فلسفے کا عظیم سرمایہ ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آیت اللہ محسن علی نجفیؒ کی کتب پر مختلف جرائد میں تبصرے شائع کرائے جائیں تاکہ ان میں موجود علوم قرآن، علم الکلام، فلسفہ اور اقتصاد کا ایک عظیم ذخیرہ وسیع تر بنیاد پر منظرِ عام پر آجائے۔
 
خدا پر توکل
آیت اللہ محسن علی نجفی ؒ جب بھی درس اخلاق دیتے تھے طلاب کےلئے اللہ پر توکل کرنے کی زیادہ تلقین کرتے تھے اور قرآن مجید کی آیت وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ9 (اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے) کی تفسیر بیان کرکے اس کے ذیل میں طلاب کے لئے نصیحت آموز گفتگو فرماتے تھے کہ مومن کو مخصوصا دینی طلاب، بالاخص ہمارے کوثر کے طلاب کو قرآن مجید کی اس آیت کو اپنےلئے معیار بنانا چاہئے، جب آپ یہاں سے اٹھ کر معاشرے میں جاتے ہیں تو آپ صرف طالب علم نہیں ہیں بلکہ عالم، فاضل اور اپنے گاوں یا علاقےکے قائد ہیں، آپ اپنی حیثیت کو کم نہ سمجھیں اور دوسروں کے آگے رزق کےلئے ہاتھ نہ پھیلائیں اس سے آپ کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔
 
فرماتے کہ آپ اپنے رزق کے امور کو اگر اللہ پر چھوڑ دیں تو آپ کے لیے اللہ کافی ہو گا کسی اور کے دروازے پر جانے کی ضرورت نہیں ہو گی اگر آپ رزق کے امور کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر توکل نہیں کریں گے تو ہر دروازے پر جانا پڑے گا پھر بھی آپ کی زندگی کے امور حل نہیں ہوں گے کیونکہ اللہ کا وضع کردہ نظام علل و اسباب کا نظام ہے۔ یہ علل و اسباب انسان کی دسترس میں اس وقت آتے ہیں جب مسبب الاسباب پر بھروسہ کریں اور اگر انسان اپنی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ آپ طلاب کو تلقین فرماتے تھے کہ دعا کریں کہ اگر کوئی انسان تیرے رزق کو پہنچانے کےلئے ذریعہ ہے تو اللہ کے صالح بندوں کے ہاتھوں سے آپ کا رزق پہنچے اور کسی کم ظرف اور کم مائع انسان کے سامنے رزق کےلئے ذلیل ہونے نہ دیں، آپ لوگ کوثر کے طلاب ہیں آپ کو کوئی پریشانی آتی ہے تو کسی اور سے مانگنے کے بجائے کوثر سے مانگیں، اللہ نے آپ لوگوں کےلئے کوثر عطا کیا ہے آپ کی علمی، مالی مشکلات اللہ کی نصرت سے ہم حل کررہے ہیں اور حل کریں گے لیکن معاشرے میں جاکر اپنی عزت کو خراب نہ کریں۔
 
حضرت زہرا ؑسےوالہانہ عقیدت
اہل بیت علیہم السلام سے والہانہ محبت اور عقیدت کاخاصہ مکتب تشیع کا ہی خاصہ ہے، لیکن بعض مومنین اور شخصیات کو اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی ایک معصوم سے کچھ خاص عقیدت ہوتی ہے اور زیادہ تراسی معصوم سے ہی متوسل ہوکر فیض اورکرامات پاتےہیں۔ آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ اہل بیت علیہم السلام سے والہانہ عیقدت اور محبت رکھتے تھے، آپ نے اپنے جتنے بھی ادارے اور پروجیکٹ بنائے ہیں ان میں سے اکثر کو اہل بیت علیہم السلام اور معصوم ہستیوں سے ہی منسوب کیا ہے جیسے جامعہ اہل بیتؑ، مدینہ اہل بیت، کلیہ اہل بیت، جامعہ الکوثر وغیرہ لیکن آپ رسول اللہ ﷺکی اکلوتی بیٹی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور طلاب کو انھیں سے متوسل ہونے کی تلقین بھی کرتے تھے۔
 
جامعہ الکوثر کی تعریف میں آپ کہتے تھے کہ مجھے جناب زہراسلام اللہ علیہا سے خاص عقیدت ہے، اسی لئے ہم نے اس جامعہ کا نام بھی کوثر ہی رکھا ہے۔ جب سے میں نے جناب زہراسلام اللہ علیہا کے نام پر اس کی بنیاد رکھی ہے، اللہ تعالی نے میرے گرہ کو کھول دیا ہے، اس کے فیض سے میں نے بہت سے امور کو انجام دیا ہے۔ آپ سورہ کوثر کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے تھے کہ جس طرح حضرت زہراؑ، رسول اللہ کے لئے خیرکثیر تھیں اور آپؑ کی نسل سے رسول اللہ کے دشمن ابتر ہوئے تھے اسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے منسوب یہ جامعہ بھی ہمارے لئے خیرکثیر ہے اور مکتب اہل بیت کے دشمن ابتر ہوئے ہیں۔
 
یتیموں، مسکنوں کے مداوا 
سماج میں بہت سے لوگ معاشی حیثیت سے پچھڑے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سماج میں ذات برداری کے نام پر نیچ اور حقیر سمجھتا جاتا ہے (اسلام کی نظر میں ایسا سمجھنا گناہ ہے)۔ کچھ لوگ سماج میں باعزت ہوتے ہیں مگر اندر خانہ ٹوٹے ہوئے اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔ وہ خود داری کی بنا پر اپنی ضرورتیں بھی لوگوں کے سامنے نہیں رکھ پاتے۔ بعض افراد اتنے لاچار اور بے بس ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنی ضرورت رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سماج کے یہ تمام ضرورت مند اور لاچار و مجبور ہماری توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔

قرآن پاک نے ایسے ضرورت مندوں کا ہمارے مال میں حق بتایا ہے: ”وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُوم“ اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔ (سورہ الذاریات آیت19) "عبادت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سائل و محروم بن جائیں، بلکہ عبادت کے ساتھ انسان کو سائل نواز اور محروم نواز بھی ہونا چاہیے۔ یہ حق خمس و زکوٰۃ کے علاوہ ہے جس کا اہل تقویٰ التزام کرتے ہیں۔ یہ آیات مکی ہیں۔ مکہ میں زکوٰۃ ابھی واجب نہیں ہوئی تھی۔"( الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 381)۔ اس صدی کی شیعہ شخصیات میں جس ہستی نے یتیموں، مسکینوں اور طلاب کی مالی اور تعلیمی مشکلات کےحل کےلئے مناسب اور مفید اقدامات کیے ہیں وہ ہستی آیت اللہ محسن علی نجفی ؒرحمہ اللہ کی ذات ہے۔ آپ نے سکردو شہر میں مدینہ اہل بیت کالونی کے نام سے ایک ایسا ادارہ کھولا ہے کہ جہاں سے اب تک ہزاروں یتیم، غریب، مسکین، بیوہ خواتین اور بے سہارا افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

 مدینہ اہل بیت کالونی میں رہنےکےلئے رہائشی مکان، گھریلو وسائل، بجلی، گیس، لکڑی، دو وقت کی روٹی، اشیاء خوردنی حتی کبھی کبھار گوشت تک کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور دس سال کے عرصے تک اس محتاج شخص اور اس کی فیملی کو وہاں پر رکھا جاتا ہے اور بچوں کے تمام دینی تربیت اور تعلیمی حتی لڑکے کی شادی اور لڑکیوں کے جہیز کے اخرجات تک بھی ادارے کی طرف سے ہی ادا کئے جاتے ہیں۔ میں خود اپنے کئی رشتہ دار، کلاس فیلوز اور دیگر جاننے والے کو دیکھ رہا ہوں کہ جو پہلے یتیم، غریب یا سفید پوش تھے جن کی کفالت مدینہ اہل بیت کالونی میں ہوتی رہی ہے آج وہ یتیم بچے اور ان مساکین کی اولاد، ملک کے بڑے بڑے اداروں میں اچھی نوکری پر ہیں اور مالی طور پر بھی مستغنی ہوگئے ہیں۔
 
اس کے علاوہ زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان اور دیگر قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد، کئی طلاب، علما اور مومنین و مومنات کے گھروں کی تعمیر، ان کی مالی مدد، تعلیمی سکالرشب، شادی اور جہیز کے لئے تعاون بھی فرماتے تھے۔
 
آپ کی نصیحت آمیز گفتگو
آپ کے اندازِ گفتگو میں سادگی اور برجستگی تھی، اسی لئےآپ کی ہر بات سامع کے دل میں اتر جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو یہ صلاحیت عطا کر رکھی تھی کہ سامنے والوں کی استعداد اور مسئولیت کے مطابق بات کرتے تھے، اسی لئے آپ کی نصیحت کا اثر ہوتا تھا۔ اگرچہ ہم جامعہ الکوثر میں پڑھتے تھے اور استاد محترم کے درس میں بھی جاتےتھے۔ ان سے علمی اور معنوی فیض بھی حاصل کرتےرہے۔ ان کے روح پرور دروس کے دوران اکثر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ گویا ہم اپنے اندر جھانک کر اپنے گناہوں پر اپنے آپ کو ملامت کر رہے ہیں اور ا پنی عملی کوتاہیوں پر نگاہ ڈال رہے ہیں اور اندر ہی اندر اللہ سے عہد کر رہے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کریں گے۔ یوں آپ کے درس سے اٹھنے کے بعد ایک روحانی لطافت محسوس ہوتی تھی۔ 

میرے کانوں میں آپ کی وہ گفتگو اب بھی سنائی دے رہی ہے کہ جو 2023 میں محرم الحرام کی تبلیغ کے بعد جب آپ سے آخری ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس وقت آپ نے گفتگو فرمائی۔ محرم الحرام کی تبلیغ کے بعد میں بلتستان سے اسلام آباد آیا اور پانچ دن جامعہ الکوثر کے مہمانسرے میں رہنا نصیب ہوا۔ غالبا 22 محرام الحرام کا دن تھا میرے ساتھ گلگت اور نگر سے تعلق رکھنے والے جامعہ الکوثر کے سابق طلاب جو حوزہ علمیہ نجف میں پڑھتے ہیں وہ بھی تھے، ہم سب آقا مہدی کریمی صاحب کے ساتھ شیخ صاحب سے ملاقات کرنے کےلئے جامعہ اہلبیت چلے گئے، جب ہم ادھر گئے تو بلتستان کے کچھ اور مبلغین بھی جامعہ اہلبیت میں پہنچے ہوئے تھے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے تواضع کے ساتھ سب کو سینے سے لگایا، پھر بیٹھنے کے بعد باری باری پوچھتے گئے کہ آپ کی پڑھائی ابھی کہاں تک پہنچی ہے؟۔ کہاں پڑھ رہے ہیں؟ شعبہ کیا لیا ہے؟

اس کے بعد محرم الحرام میں کہاں کہاں تبلیغ کیں اور تبلیغ کی دیگر کیا فعالتیں انجام دیں۔ اس کےبعد آپ نے تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت پر گفتگو شروع کی اور ہم سب سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ لوگوں کو تبلیغ کے میدان کو سنبھالنا ہوگا۔ گلگت بلتستان میں اب تبلیغ کی زیادہ ضرورت ہے دشمن وہاں پر مختلف طریقوں سے کام کر رہا ہے وہ ہر میدان میں مسلح ہو کرآیا ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ پہلے قم اور نجف میں ان موضوعات کو پڑھیں جو ہمارے معاشرے کی ضرورتوں کو پوری کرسکتے ہیں۔ اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر 104 کی تلاوت کیں:(وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ)"اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ (سورہ آل عمران 104 )۔ 

اس کے ذیل میں اس کےکچھ تفسیری نکات کو بیان فرمائے جن کا مفہوم کچھ اسی طرح کا تھا "صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اسلام کے پاس نظامِ دعوت اور کلمۂ حق کہنے کا ایک فریضہ ہے۔ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ تعمر الارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم ۔ ”زمین کی آبادکاری، دشمنوں سے انتقام اور نظام کا استحکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مضمر ہے۔“(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 134)
خبر کا کوڈ : 1181276
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش