تحریر: کاشف رضا
پاپا! آتش بازی کا سامان پورا کر دیا ہے میں نے۔ کھانے کی ارینجمنٹ ماما نے دیکھ لی ہے، اب بس کیک رہ گیا ہے، وہ کب تک آجائے گا۔۔۔۔ احتشام نے اپنے والد سے پوچھا۔ نئے سال کی آمد آمد تھی، نئے دن اور نئے سال کا آغاز ہونے میں بس کچھ گھنٹے ہی باقی تھے۔ احتشام عزیز شہر کے مشہور بلڈر رحمان عزیز کا اکلوتا بیٹا تھا۔رحمان عزیز نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، دنیا کی ٹھوکریں کھائیں تھیں، زمانے کے اتار چڑھاؤ دیکھے تھے، لیکن اپنی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایسی دھن سوار تھی کہ جب تک رحمو سے رحمان عزیز تک کا سفر طے نہ کرلیا، چین سے نہ بیٹھا۔ زندگی میں کوئی چیز اسے آسانے سے نہیں ملی تھی۔ نام، عزت، شہرت، مال و دولت سب کچھ حاصل کرنے کے لئے اس نے بڑی تگ و دو کی تھی۔ ایک خاص مچھلی کی طرح دریا کی موجوں کے رخ کے برخلاف سفر کیا تھا۔ مشکل سے ہی سہی، لیکن اس نے سب کچھ حاصل کر لیا تھا، لیکن ایک چیز کی کمی رہ گئی تھی، اولاد کی ٹھنڈک۔ بارہ سال تک کونسا مہنگے سے مہنگا علاج تھا، جسے اس نے آزمایا نہ تھا۔ کونسے پیر یا دربار کی چوکھٹ تھی، جس کا در اس نے کھٹکایا نہ تھا۔ لیکن شاید اس کی زندگی کا ہمیشگی اصول یہاں بھی کارفرما تھا، اسے کوئی بڑی چیز آسانی سے نہیں ملنی تھی۔
بارہ سال کے بعد قدرت کو اس کی اس شدید خواہش پر رحم آہی گیا اور اسے احتشام عزیز نامی فرزند عطا ہوا۔ احتشام پورے خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن رحمان عزیز کی آنکھ کا تارا، دل کا دلارا اور عزیز ایماپئر کا اکلوتا وارث تھا۔ اس کے لب کھولنے سے پہلے ہی اس کی ہر خواہش پوری کردی جاتی تھی۔ بچپن میں مہنگے مہنگے سے کھلونوں سے لے کر نوجوانی میں بیرون ممالک کے لگژری ٹورز تک سب کچھ اس کے بس ایک لفظ کہنے کی دوری پر تھے۔ ہر سال کی آخری رات یعنی نئے سال کی آمد پر شہر کے پوش ترین علاقے میں واقع عزیز ہاؤس کے اندر عالیشان نئے سال کا جشن منعقد ہوتا تھا۔ پورے ملک کی مشہور کاروباری، سیاسی، سماجی اور صاحب اختیار شخصیات اس میں مدعو ہوتی تھیں۔ اس پارٹی کا چرچا کئی دنوں تک مشہور ٹی وی چینلز اور اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنا رہتا تھا، بلکہ بڑے بڑے لوگ بھی انتظار کرتے تھے کہ کب یہ سال ختم ہونے کو آئے اور سب اس پارٹی میں جائیں۔
ہاں بیٹا، کیک کا آرڈر میں نے دے دیا تھا لیکن ڈرائیور کے گھر میں فوتگی ہوگئی تھی، اس لئے اچانک اس کو جانا پڑا۔۔۔ رحمان عزیز نے جواب دیا، تو پاپا اب کیک کون لائے گا؟۔۔۔ احتشام نے پوچھا۔ کوئی بات نہیں بیٹا، ابھی پارٹی میں کچھ وقت باقی ہے، میں خود لے آتا ہوں، بلکہ کیوں نہ تم بھی میرے ساتھ ہی چلو۔۔۔ رحمان عزیز نے کہا۔ ہاں چلیں، آپ گاڑی نکالیں، میں بس کپڑے بدل کر آتا ہوں۔۔۔ احتشام عزیز نے کہا۔ کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹا شہر کی سب سے مشہور بیکری سے پہلے سے آرڈر شدہ کیک لینے کے لئے چل پڑے۔ شہر بھر میں خوشی کا سماں تھا، کہیں بڑی بڑی عمارتوں پر چراغانی کی گئی تھی تو کہیں کچھ منچلے باجوں کی صفائیوں میں مصروف تھے۔ بازار بھی کھچا کھچ بھرے ہوئے، مٹھائیوں کی دکانوں پر تو ایسا لگ رہا تھا گویا آج پورا شہر یہیں امڈ آیا ہے۔ ٹریفک کی صورتحال سنگین تھی، کئی جگہ سے پولیس نے راستے بند کئے ہوئے تھے، لیکن رحمان عزیز کو شارٹ کٹ معلوم تھا، وہ جلدی سے بیکری پر پہنچ گئے، کیک لیا اور واپسی کے لئے نکل پڑے۔
راستے میں رحمان عزیز کو ایک دوست کی کال آگئی۔ دوست نے بتایا کہ شہر بھر میں دھرنے جاری ہیں، جس کی وجہ سے راستے بند ہیں، وہ پارٹی میں نہیں آسکے گا۔ رحمان عزیز نے اس کو کہا کہ وہ اس کے گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہی ہے، وہ جلدی سے تیار ہو جائے، وہ اس کو لینے کے لئے آرہا ہے۔ رحمان عزیز نے یوٹرن لیا اور دوست کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ کر دیا۔ وہ لوگ ابھی کچھ ہی آگے گئے تو دیکھا راستہ بند تھا، شدید سردی بھری رات میں بوڑھے، جوان، خواتین اور بچے تک ہاتھوں میں مختلف پلے کارڈ تھامے سڑک پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی پر لکھا تھا "پاراچنار کا راستہ کھولو"، کسی پر لکھا تھا "دوائیاں نہ ملنے کی وجہ سے مرنے والے پچاس بچوں کا خون کس کی گردن پر" تو کسی پر لکھا تھا "یہ زمین کا تنازعہ نہیں، نسل کشی ہے۔"
سترہ سالہ احتشام نے حیرت بھری نگاہوں سے اطراف میں نظریں دوڑائیں اور باپ سے پوچھ لیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔؟ آج نیو ایئر نائٹ ہے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں جشن منانے کی بجائے اس طرح سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ رحمان عزیز نے کہا: کچھ نہیں بیٹا، افغانستان کے بارڈر پر پاراچنار نامی علاقہ ہے، وہاں دو گروہوں کے درمیان زمین کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے آئے دن وہاں خون خرابہ ہوتا رہتا ہے۔ وہاں جانے کا ایک ہی زمینی راستہ ہے اور وہ بھی پچھلے اڑھائی مہینے سے بند ہے۔ احتشام باپ کا جواب سن کر حیران ہوا کہ کہاں افغانستان کا بارڈر اور کہاں اس شہر میں یہ دھرنے۔؟ رحمان عزیز نے احتشام کی حیرت زدہ نظریں پڑھ لیں تھیں، وہ سمجھ گیا کہ اس کا یہ جواب بیٹے کو کچھ زیادہ قائل نہیں کرسکا۔ اس نے خود ہی بولنا شروع کر دیا: کہنے کو تو بیٹا کہا جاتا ہے کہ وہاں زمینی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں شیعہ لوگ آباد ہیں۔ راستے میں کچھ دہشتگردوں کے علاقے ہیں، وہ ہر کچھ عرصے بعد وہاں سے گزرنے والے نہتے معصوم لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
یہ سب بھی شیعہ لوگ ہیں، جو ان کی حمایت کی خاطر یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں ایرانی اسلحہ موجود ہے، حکومت کہتی ہے کہ جب تک وہ یہ اسلحہ ان سے لے نہیں لے گی، راستہ نہیں کھلے گا۔ لیکن پاپا، یہاں تو لکھا ہوا کہ خوراک اور دوائیاں نہ ہونے کی وجہ سے پچاس بچے مرچکے ہیں، حکومت اور عسکری طاقتیں کہاں ہیں۔۔۔ اور پاپا ابھی تو آپ نے کہا کہ اس علاقے کے ایک طرف افغانستان ہے اور دوسری طرف دہشتگردوں کے علاقے تو پھر ایرانی اسلحہ وہاں کیسے پہنچا؟ احتشام نے تعجب سے کہا۔ رحمان عزیز کو بیٹے سے ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ اس نے کہا: بیٹا ان سب باتوں کا کوئی آسان جواب نہیں، لیکن اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس پر بیتتی ہے، بس وہی جانتا ہے، کئی دفعہ کسی کا مرنا کسی اور کی زندگی کے مفاد میں ہوتا ہے۔۔۔
یہ کہتے ہی رحمان عزیز نے دوست کو فون ملا دیا اور اس کو بتا دیا کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں آپائے گا، مجبوراً اسے واپس گھر جانا پڑے گا، جہاں مہمانوں نے آنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی وہ فون پر بات کر ہی رہا تھا کہ پولیس نے ان نہتے احتجاج کرنے والوں پر ڈنڈے، پتھر اور گولیاں برسانا شروع کر دیں، بھگڈر سی مچ گئی۔ ایسی صورتحال دیکھ کر رحمان عزیز نے فوراً گاڑی واپس موڑ لی اور ایک تنگ و تاریک گلی سے ہوتے ہوئے دوسری سڑک پر آگیا۔ سب کچھ اس طرح آناً فاناً ہوا کہ احتشام کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا بولے، کیسے بولے، یا پھر اسے کچھ بولنا بھی چاہیئے یا نہیں۔ احتشام عزیز سوچ کے بھنور میں گھر چکا تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایک طرف شہر میں لوگ نئے سال کا جشن منا رہے ہیں، جبکہ وہیں دوسری طرف یہ بچے، بوڑھے، عورتیں ملک کے دوسرے کسی علاقے میں ہونے والے ظلم کے خلاف سڑک پر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہی تو وہ انسانیت ہے کہ چبھے جب کانٹا ہاتھ میں تو اشک بہائے آنکھ۔
رحمان عزیز اور احتشام گھر واپس پہنچ چکے تھے، گھڑی میں بارہ بجنے میں بس کچھ منٹ ہی باقی بچے تھے، تقریباً تمام مہمان آچکے تھے۔ جیسے ہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے، مہمان آگے بڑھ کر ان سے ملنا شروع ہوگئے۔ رحمان عزیز نے سب سے اجازت لی اور کپڑے تبدیل کرنے گھر کے اندر چلا گیا۔ احتشام کو رہ رہ کر اپنی آنکھوں کے سامنے وہ معصوم نہتے لوگ نظر آرہے تھے۔ اس کو اچانک یہاں کوفت سی محسوس ہونے لگی تھی، اسے لوگوں کی یہ بناوٹی ہنسیاں چبھنے لگیں، ان صاحب اختیار سماجی،سیاسی شخصیات کی خوش گپیاں اسے مجرمانہ اور بے ضمیری کے قہقہے لگنا شروع ہوگئے۔ رحمان عزیز واپس آیا تو سب نے موجودہ سال کو خیرباد کہنے اور نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے اونچی آواز میں الٹی گنتی گننا شروع کر دی۔ جیسے ہی پورے بارہ بجے آسمان آتش بازی کے نور سے جگمگا اٹھا، احتشام باہر دروازے کی طرف چل پڑا۔ سب لوگ کیک کھانے میں مصروف تھے، لیکن رحمان عزیز نے بیٹے کو دروازے کی طرف جاتے دیکھ لیا تھا، فوراً اس کے پاس گیا اور پوچھا: کہاں جا رہے ہو۔۔۔ انسانیت کی آواز بننے۔۔۔ احتشام نے پوری بات سنے بغیر ہی جواب دیا۔
یکم جنوری 2025ء