1
Sunday 29 Dec 2024 18:07

ہیروشیما سے طرطوس تک

ہیروشیما سے طرطوس تک
تحریر: علی احمدی
 
غاصب صیہونی رژیم نے شام کی سرزمین پر فوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایٹمی دہشت گردی بھی انجام دے ڈالی ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام نے نہ صرف پورے خطے بلکہ بین الاقوامی نظام کو شدید سیکورٹی خطرے سے روبرو کر دیا ہے۔ صیہونی رژیم نے حال ہی میں شام کی بندرگاہ طرطوس کے علاقے پر ایک خاص قسم کا ایٹم بم گرایا ہے جس کی جوہری نوعیت کی تصدیق عالمی ماہرین نے بھی کر دی ہے۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی حکمرانوں کے جنگی جنون کی کوئی حد نہیں ہے۔ ایسا جنگی جنون جسے نہ صرف نام نہاد بین الاقوامی اداروں نے لگام نہیں دی بلکہ اپنی مجرمانہ خاموشی اور حتی درپردہ گستاخانہ حمایت اور آشیرباد سے اسے مزید ہوا دی ہے۔
 
طرطوس پر صیہونی رژیم کا ایٹمی حملہ
خطے کے ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں یہ دل ہلا دینے والی خبر شائع کی ہے کہ اسرائیل نے شام کے شہر طوطوس پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے تابکاری سے متعلق ناظر ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ طوطوس پر اسرائیلی فضائی حملے کے صرف 20 گھنٹے بعد ترکی اور قبرس میں تابکاری شعاعوں میں تیزی سے شدت آئی ہے۔ یہ مشاہدات ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل نے طرطوس پر چھوٹا ایٹم بم گرایا ہے۔ بعض دیگر خبری ذرائع نے بھی تابکاری پر مشتمل آلودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طرطوس پر اسرائیلی حملے میں جوہری ہتھیار استعمال ہوا ہے۔ اس بارے میں نیوز ویب سائٹ انڈیا کام نے لکھا: "اسرائیلی فوج نے ایک ایسا اقدام انجام دیا جس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔"
 
یہ ویب سائٹ مزید لکھتی ہے: "16 دسمبر 2024ء کے دن شام کے شہر طرطوس میں ایک اسلحہ کے ڈپو پر حملہ کیا گیا اور موصولہ رپورٹس کی روشنی میں اسرائیل نے اس شدید اور وسیع حملے میں اسکڈ میزائل کی فیکٹری تباہ کی ہے۔ اسی طرح رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں بہت وسیع نقصان ہوا ہے جبکہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک چھوٹے ایٹمی ہتھیار کا استعمال کیا ہے۔" یہ کہنا بجا ہو گا کہ صیہونی رژیم نے گولان، قنیطرہ اور طرطوس میں جس بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تصور حد سے بھی بہت زیادہ ہے اور اسرائیل کی جانب سے ایک قسم کے جوہری ہتھیار کا استعمال اس کے وحشیانہ پن کے عروج کو ظاہر کرتا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم شام کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی لیبارٹری میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔
 
طرطوس پر صیہونی رژیم کے جوہری حملے کے بعد 3 ریکٹر کا زلزلہ بھی رونما ہوا جبکہ اس سے ہونے والا دھماکہ بھی بہت شدید تھا۔ یہ زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ طرطوس سے 820 کلومیٹر دور ترک کے شہر ایزنیک کے شہریوں نے بھی اسے محسوس کیا۔ مزید برآں، روس کی اسپوتنیک خبررساں ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ: "اسرائیل نے طرطوس کو ایک جنگی جہاز سے فائر ہونے والے نئے قسم کے میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ بعض رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ امریکی ساختہ بی 61 بمبار طیارے سے انجام پایا ہے۔ واضح ہے کہ ایسا اقدام امریکہ، خاص طور پر سینٹکام کی اطلاع کے بغیر انجام نہیں پایا۔ اس حملے کے بعد ترکی اور قبرس میں تابکاری کی شدت میں اچانک اضافہ ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیار بروئے کار لایا گیا ہے۔"
 
عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی حمایت کا نتیجہ
غاصب صیہونی رژیم کی حالیہ جوہری دہشت گردی پر ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی، آئی اے ای اے، پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گذشتہ برس غزہ جنگ شروع ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد صیہونی کابینہ کے انتہاپسند وزیر غزہ پر جوہری بم گرا دینے کی دھمکیاں دینے لگے۔ اس سے صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آتا ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے "دھمکی دو اور تکذیب کرو" کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کا مقصد خطے اور دنیا کو اپنے پاس موجود 200 جوہری ہتھیاروں سے ڈرانا دھمکانا ہے۔ سابق صیہونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس رژیم کے پاس 200 ایٹم بم موجود ہیں۔ دوسری طرف نہ تو آئی اے ای اے اسرائیل کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے ناجائز استعمال کا نوٹس لیتی ہے اور نہ ہی اس کے خلاف قرارداد منظور کی جاتی ہے۔
 
رافیل گروسی کی خاموشی
اقوام متحدہ کا ایٹمی توانائی کا ادارہ، آئی اے ای اے، وہ واحد عالمی ادارہ ہے جو کسی بھی حملے میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی حتمی تصدیق کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے باوجود آئی اے ای اے کے سیکرٹری جنرل رافیل گروسی اس بہانے سے چپ سادھے بیٹھا ہے کہ اسرائیل این پی ٹی کا رکن نہیں ہے لہذا اس پر آئی اے ای اے کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ رافیل گروسی کو چاہیے کہ وہ اسرائیلی لابی کا حصہ بننے کی بجائے اور ایران کے خلاف بے جا طور پر قرارداد پیش کرنے کی بجائے این پی ٹی میں اسرائیل کی رکنیت پر زور دے۔ اس وقت تک مغربی حکمرانوں اور آئی ای اے ای نے صیہونی رژیم کی ایٹمی دہشت گردی پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ آئی ای اے ای کے علاوہ سلامتی کونسل کے تین رکن ممالک، امریکہ، برطانیہ اور فرانس بھی غاصب صیہونی رژیم کی بربریت اور مجرمانہ اقدامات میں برابر کے شریک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1181211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش