تحریر: محمد حسن جمالی
پاراچنار میں شیعہ کشی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ انسانیت کے دشمنوں نے پوری منصوبہ بندی کے تحت پاراچنار کی شیعہ کمیونٹی کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دم لینے کا مزموم ارادہ کر رکھا ہے۔ اس ناپاک ہدف کی تکمیل کے لئے انہوں نے ریاست کا تعاون حاصل کرلیا ہے۔ ریاست کی حمایت اور تعاون پاراچنار کی امنیت ہضم نہ ہونے والے افراد کے ساتھ ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم ایجنسی پاراچنار کو دیگر اضلاع اور شہروں سے مربوط کرنے والے واحد راستے کو بند کر رکھا ہے۔ اس کے باسیوں کو بھوک، پیاس کا شکار کرکے نیز مریضوں کو ادویات و علاج و معالجے سے دور رکھ کر مارنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس ناپاک سازش سے اب تک بے شمار عمر رسیدہ مریض مرد و عورت اور سو سے زیادہ چھوٹے معصوم بچے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔
ان مظلوموں کی حفاظت کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری تھی، مگر مذہبی تعصب نے پاکستانی حکمرانوں اور ریاست کے ذمہ دار افراد کو پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کرنے کے بجائے ان کے قاتل و سفاک انسان نما درندوں کی حمایت پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں ریاست کو اپنی اوقات دکھانے کے لئے ملک گیر احتجاج کا آپشن ہی باقی رہتا تھا۔ چنانچہ مجلس وحدت مسلمین کے بصیر و خبیر سربراہ علامہ راجا ناصر عباس جعفری سمیت دیگر قائدین نے پاکستان کی جگہ جگہ پاراچنار پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج اور دھرنا دینے کا حکم جاری کر دیا۔ یقیناً اس سلسلے کو بہت پہلے شروع کر دینا چاہیئے تھا، پھر بھی دیر آید درست آید کے مطابق احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جس کا نتیجہ مثبت صورت میں ہی ان شاء اللہ برآمد ہوگا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام باشعور افراد کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاراچنار کے مظلوم شیعہ مسلمانوں کی حمایت میں جاری احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کو کامیاب بنانے کے لئے اپنے اپنے حصے کا دیا جلانا ضروری ہے۔ آپ قلمکار ہیں تو ان دھرنوں کے مقاصد پر قلم فرسائی کریں۔ آپ خطیب ہیں تو اپنے خطبات میں ان میں مضمر پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ غرض جس کے پاس جو طاقت ہے، وہ اپنی اسی طاقت کو ملک کے مختلف مقامات پر جاری احتجاجات کو نتیجہ خیز بنانے کی راہ میں استعمال کرے۔ پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں جاری احتجاج اور دھرنے پر مختلف پہلوؤں سے تجزیہ و تحلیل جا سکتا ہے۔ اس تحریر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جدوجہد کی گئی ہے کہ پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں ملک گیر احتجاج کیوں۔؟
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاراچنار کے مسلمان طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ان پر حملے، قتل اور دیگر حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ملک گیر احتجاج اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور متاثرہ کمیونٹی کی حمایت میں آواز بلند کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی لعنت نے نہ صرف شیعہ کمیونٹی کو بلکہ پوری قوم کو نقصان پہنچایا ہے۔ مظلوم کمیونٹیز کی حمایت اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کے فروغ میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے عوامی سطح پر مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف پاراچنار بلکہ ملک بھر میں ہر مظلوم کمیونٹی کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کا درد سمجھا جا رہا ہے اور ان کی حمایت کی جا رہی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ حکومت کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاراچنار میں شیعہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے، تاکہ وہ ظالموں کے تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یہ مظاہرے ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں اور کسی بھی فرقہ وارانہ یا نسلی تفریق کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے ایک مثبت پیغام ملتا ہے، جو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ جب حکمرانوں تک مظلوموں کی آواز پہنچانے کے لیے عوامی احتجاج کیا جاتا ہے تو یہ ان کے حالات کو اجاگر کرتا ہے اور حکومتی اداروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر مسئلہ حل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
احتجاجی مظاہرے ایک موثر ذریعہ ہیں، جس سے حکمرانوں کو عوامی جذبات اور مطالبات کا ادراک ہوتا ہے۔ حکومتی ادارے یا حکمران پاراچنار کے عوام کو درپیش مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے، ان مظاہروں کے ذریعے حکمرانوں کو پاراچنار کے حوالے سے بیدار کرنے کے لئے احساس دلایا جا سکتا ہے۔ احتجاج اور مظاہرے حکومت کو اس بات کا جواب دہ بناتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ توجہ رہے کہ طول تاریخ میں سب سے زیادہ شیعیان حیدر کرار ریاستی جبر اور ظالم و جابر حکمرانوں کے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ مظلوم کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کرنا قرآن صامت و ناطق کا واضح پیغام ہے۔ ظلم کے خلاف صدا بلند کرنا انبیاء الہیٰ کی سنت و سیرت ہے۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا ائمہ معصومین کی سیرت کا حصہ ہے۔ ائمہ معصومین خاص طور پر امام حسین علیہ السلام نے اپنی زندگیوں کے مختلف مواقع پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی مخالفت کی۔
امام حسین کی قیادت میں کربلا کا معرکہ ایک روشن مثال ہے، جہاں امام حسین علیہ السلام نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف قیام کیا، حتیٰ کہ اپنی جان کی قربانی بھی دی، لیکن اصولوں اور اقدار کے سامنے جھکنا پسند نہ کیا۔ ان کی یہ قربانی اور احتجاج آج بھی ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا درس دیتا ہے۔ امام علی علیہ السلام نے بھی ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی اہمیت کو واضح کیا۔ ان کی زندگی میں مختلف مواقع پر ظلم کے خلاف جنگ اور انصاف کے قیام کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ امام علی کی حکمرانی میں انصاف، حق اور ظلم کی مخالفت کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ ائمہ ھدیٰ کی یہ سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا صرف ایک انسانی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ایک اسلامی اور دینی فریضہ ہے۔
امام علی علیہ السلام کی شخصیت اسلامی تاریخ میں نہ صرف ایک عظیم سپہ سالار اور سیاست دان کے طور پر جانی جاتی ہے، بلکہ وہ انصاف کے محافظ بھی تھے۔ امام علی (ع) کی سیرت اور ان کے اقوال ہمیشہ مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف ان کی جدوجہد کی علامت رہے ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ہمیں مظلوموں کے ساتھ ان کے تعلقات، حمایت اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کا نمونہ ملتا ہے۔ امام علی کی حکومت میں انصاف، مساوات اور مظلوموں کی حمایت کا اصول ہمیشہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہر حال میں ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور مظلوموں کے حقوق کا دفاع کریں۔ ائمہ معصومین کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی زندگی میں انصاف اور مساوات کے اصولوں پر عمل کریں۔ قابل غور سوال ہے کہ پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں ملک گیر احتجاج کیوں۔؟