1
Thursday 26 Dec 2024 22:07

ظلم سے زوال تک: صیہونی رژیم کا تاریک مستقبل

ظلم سے زوال تک: صیہونی رژیم کا تاریک مستقبل
تحریر: محمد صادق کوشکی
 
الہی اور دینی نقطہ نظر اس لحاظ سے مادی نقطہ نظر سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں مادی اور دنیوی اسباب کے ساتھ ساتھ الہی اسباب کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم اور اسلامی مزاحمت کا قصہ بھی اسی طرح کا ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو صرف مادی نظر سے دیکھیں تو ممکن ہے ہم جو نتائج اخذ کریں وہ ان نتائج سے بہت ہی زیادہ مختلف ہوں جو الہی اور دینی نقطہ نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لینے سے حاصل ہوتے ہیں۔ مادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم خطے میں سب سے بڑی فوجی طاقت ہے جبکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی اسے خطے کے دیگر ممالک اور گروہوں پر برتری حاصل ہے۔ مزید برآں، وہ امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل حمایت سے بھی برخوردار ہے۔
 
لہذا مادی لحاظ سے دیکھا جائے تو ممکن ہے ایک شخص اس نتیجے پر پہنچے کہ فی الحال اسرائیل خطے کی فاتح اور غالب طاقت ہے۔ لیکن جب ہم دینی اور الہی نقطہ نظر سے مغربی ایشیا کے حالات، خاص طور پر غاصب صیہونی رژیم کی مرکزیت میں مغربی طاقتوں کے اتحاد اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے درمیان جاری ٹکراو کا جائزہ لیتے ہیں تو بالکل مختلف نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ قرآن کریم کی سورہ اسراء آیت 81 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: إِنَّ ٱلبَاطِلَ کانَ زَهُوقًا (یقیناً باطل تیزی سے زوال پذیر ہونے والا ہے)۔ لہذا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کرنا چاہیے کہ غاصب صیہونی رژیم جس راہ پر گامزن ہے وہ زوال کے علاوہ کوئی نہیں اور اس کا سرانجام نابودی ہے جو بہت جلد سامنے آنے والا ہے۔ ہمارے زمانے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم باطل کا بہت ہی واضح مصداق ہے جو یقیناً صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
 
یہ باطل پانی پر جھاگ کی مانند ہے جو بہت مختصر مدت کے لیے دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی اور آخر میں ختم ہو جاتی ہے۔ جب ہم اس الہی نگاہ کو زمینی حقائق سے جوڑتے ہیں تو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم اس وقت ظلم و ستم اور بربریت کے ایسے فوارے کی مانند ہے جو اپنی بلندی کی آخری حد کو چھو چکا ہے اور اب اس نے نیچے آنا ہے۔ تاریخ میں جتنی بھی ظالم و جابر حکومتیں اور حکمران گزرے ہیں ان کے زوال کا آغاز ٹھیک اس وقت ہوا جب وہ ظلم اور فساد کی انتہا پر پہنچ چکے تھے۔ ظلم کے اسی عروج سے ان کا زوال شروع ہوا اور وہ تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو گئے۔ اسرائیل نے بھی یہی راستہ طے کرنا ہے۔
 
اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حالات پر ایک نظر ڈالیں تو اس کی نابودی اور زوال کے واضح آثار اور شواہد کا مشاہدہ کریں گے۔ مثال کے طور پر صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کیس میں جاری عدالتی کاروائی کی تیسری پیشی مختلف بہانوں سے موخر کر دی گئی ہے۔ یہ بذات خود صیہونی رژیم کے اندر پائے جانے والے شدید بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔ مزید برآں، صیہونی کابینہ کے انتہاپسند ترین اور شدت پسند ترین دھڑے بجٹ سے مربوط مسائل میں ایکدوسرے سے شدید ٹکراو اور اختلافات کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف بنجمن نیتن یاہو بھی بہت کم نمبرز سے کینسٹ (صیہونی پارلیمنٹ) میں اپنے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ تمام شواہد اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صیہونی رژیم کے اندر ختم نہ ہونے والی خلیج اور دراڑ پیدا ہو چکی ہے۔
 
ان حالات کا شکار صرف صیہونی حکومت ہی نہیں بلکہ صیہونی فوج بھی بہت ابتر حالات سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ صیہونی آبادکاروں کی بڑی تعداد اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ آیا صیہونی رژیم اپنا وجود مزید باقی رکھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟ ایسے وقت جب عالمی اور علاقائی سطح پر ان کے خلاف نفرت روز بروز پھیلتی جا رہی ہے، یہ سوال بھی صیہونی آبادکاروں کے ذہن میں پیدا ہو چکا ہے کہ کیا نفرت کا یہ لاوا جو دھیرے دھیرے پک رہا ہے، اچانک آتش فشان کی صورت میں ظاہر ہو جائے گا اور ان کی غاصب رژیم کو پانی پر جھاگ کی صورت میں بہا لے جائے گا؟ یہ وہی تعلق ہے جو غاصب صیہونی رژیم سے متعلق الہی اور مادی نقطہ نظر کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، غاصب صہپونی رژیم خود ہی اپنی نابودی کا سبب ہے۔
 
اسرائیل آج جس چیز سے روبرو ہے وہ اس کے اپنے ہی عظیم ظلم اور فساد کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس رژیم پر باہر سے کاری ضربیں نہیں لگیں گی بلکہ خداوند متعال کی مدد اور نصرت سے اسلامی مزاحمت کے مجاہدین یہ ضربیں اس پر ضرور لگائیں گی۔ غاصب صیہونی رژیم اس حقیقت کے برعکس جسے وہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے، اندر سے بری طرح کمزور اور کھوکھلی ہو چکی ہے۔ یہ رژیم نہ صرف اسلامی مزاحمتی قوتوں کے مقابلے میں بلکہ اندرونی بحرانوں اور بین الاقوامی دباو کے مقابلے میں بھی اپنا وجود باقی رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آخرکار، ایسے ہی جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے، باطل بالآخر نابود ہو جائے گا اور کوئی بھی طاقت ایسی رژیم کو نابود ہونے سے نہیں بچا سکتی جس کی بنیاد جھوٹ اور ظلم پر استوار ہو۔
خبر کا کوڈ : 1180679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش