اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے پاکستان میں ایرانی سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ایرانی سفیر نے مولانا فضل الرحمان کی صحت و تندرستی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ملاقات میں ایران پاکستان تعلقات، علاقائی صورتحال بالخصوص غزہ میں جاری ناجائز صہیونی ریاست کی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایرانی سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم نے کہا کہ فلسطین کی حمایت پر جے یو آئی کی کاوشوں اور پاکستان بھر میں شایان شان غزہ یکجہتی مظاہروں کے انعقاد پر سلام پیش کرتا ہوں، علمائے کرام بالخصوص آپ جیسے مدبر اور حکیم سیاسی رہنما سے تبادلہ خیال اور صلاح مشورہ کو ضروری سمجھتا ہوں۔ ایرانی میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عالم اسلام فلسطینیوں کی حمایت میں مضبوط آواز بلند کرے، خطے کے اہم ممالک پاکستان، ایران، ترکیہ، سعودی عرب اور ملائشیا دفاع غزہ اور اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائیں، ہم نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش کو دفن کردیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت جو قضیہ فلسطین ہے یا القدس کا مسئلہ ہے یا غزہ کی صورتحال ہے یہ صرف وہاں کے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، قبلہ اول یہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اور مسلمانوں نے ہی اس کو بار بار فتح کیا ہے اور 1967 میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کیا، ظاہر ہے کہ نہ تو اقوام متحدہ نے ان کے قبضے کو تسلیم کیا ہے اور اس وقت بھی وہ علاقہ جو ہے وہ اقوام متحدہ کی رو سے تو متنازع ہے، ہرچند کے ہمارے نزدیک وہ فلسطین کا حصہ ہے اور اس میں کسی قسم کی تردد کی گنجائش نہیں ہے لیکن اندازہ لگائیں کہ جہاں پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہوں کہ وہ متنازع ہے وہاں امریکہ متنازع علاقوں میں سفارت خانے مقرر کر رہا ہے، تو کس طریقے سے وہ ایک جبر اور ایک لاقانونیت اور عرب دنیا کے پیٹ میں جو چھرا گھونپا گیا تھا اس کے زخم کو مزید گہرا کر رہا ہے، اس وقت پچاس سے ساٹھ ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں، پچھتر فیصد اس میں بچے ہیں اور خواتین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں انسانیت کا ایک سال کے اندر اتنا قتل نہیں ہوا ہوگا اور اس کے باوجود امریکہ اور مغربی دنیا اس کو سپورٹ کر رہا ہے، امریکہ کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرے گا، امریکہ صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے، مغرب سے اپنے مفادات کو دیکھتا ہے، جنگ عظیم اول ہو یا جنگ عظیم دوم ہو کروڑوں انسانوں کا خون کیا انہوں نے اور پھر بھی وہ انسانی حقوق علمبردار بنتے ہیں، آج بھی وہ فلس طینی بچوں کو مار رہے ہیں خواتین کو مار رہے ہیں بزرگوں کو مار رہے ہیں جو اسلحہ نہیں اٹھا سکتے ان کو مار رہے ہیں، کس بات پہ وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، تو اس صورتحال میں انہوں نے جس طرح اسرائیل کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے یہ ان کے اصل چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے، اور دہشت گردی اور ریاستی دہشت گردی کا ان کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے، تو پوری انسانیت کو اس سے پیغام ملتا ہے کہ وہ کبھی بھی انسانیت کے وفادار نہیں رہے، اور حتی کہ اسلامی دنیا کے تو وہ بیخ کنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پھر اسلامی دنیا کو فرقہ واریت کی بنیاد پر آپس میں لڑانے کی سازشیں کر رہے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے وہ اسباب بنارہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف اکسا رہے ہیں، تو یہ سیاست ہے ان کی اور یہ سیاست کوئی انسانیت نہیں کہلائی جاسکتی۔