تحریر: حنیف غفاری
حال ہی میں امریکہ کے ایک حکومتی وفد نے شام کا دورہ کیا ہے اور ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی سے ملاقات کی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس ملاقات کو مغربی ایشیا خطے سے متعلق واشنگٹن کی خارجہ سیاست میں فیصلہ کن موڑ قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاوس میں بیٹھے سیاست دان اس ملاقات کے بعد دنیا والوں کو یہ جھوٹا تصور پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ یہ ملاقات امریکہ اور ھیئت تحریر الشام کے درمیان تعلقات کا پہلا قدم ہے اور ایک "اسٹریٹجک اتحاد" کی جانب پہلی سیڑھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتہائی خوش فہمی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تب بھی امریکہ کے حکومتی وفد اور ھیئت تحریر الشام کے سربراہ کے درمیان یہ ملاقات دراصل تکفیری دہشت گردی اور مغربی ایشیا میں اس کی پیدائش کے اصل سرچشمے یعنی واشنگٹن سے تعلق کو منظرعام پر لانا ہے۔
اس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابو محمد الجولانی کی گرفتاری کے لیے اس کے سر پر لگا 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا گیا ہے جبکہ امریکی وزارت خارجہ نے جلد از جلد ھیئت تحریر الشام پر عائد پابندیاں ختم کر دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس بارے میں درج ذیل دو نکات بہت اہم ہیں:
1)۔ امریکی حکمرانوں کی نظر میں دہشت گردی "ذاتی طور پر بری" ہونے کی بجائے "فائدے کے حصول کا بہترین ذریعہ" ہے۔ دوسرے الفاظ میں، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں دہشت گردی بذات خود کوئی خطرہ یا قابل مذمت چیز نہیں ہے بلکہ اس کے اچھا یا برا ہونے کا انحصار دہشت گرد عناصر کی جانب سے امریکہ کے سیکورٹی اور سیاسی مفادات کے لیے نقصان دہ یا فائدہ مند ہونے پر ہے۔ یہ قانون القاعدہ، داعش اور ھیئت تحریر الشام سمیت تمام دہشت گرد گروہوں پر لاگو ہوتا ہے۔
2011ء سے 2018ء کے درمیان، جب تکفیری دہشت گرد گروہ داعش شام اور عراق میں بیگناہ مردوں، خواتین اور بچوں کے خلاف بدترین جرائم انجام دینے میں مصروف تھا، سینٹکام، پنٹاگون اور وائٹ ہاوس کی جانب سے پسندیدہ دہشت گردی میں تبدیل ہو گیا۔ سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ عراق اور شام میں داعش کے نجس وجود کے آخری دنوں میں امریکی فوجی اپنے کٹھ پتلی دہشت گرد عناصر کو تباہی اور نابودی سے بچانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے تھے لیکن آخرکار یہ گروہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے طاقتور پنجوں میں آ کر دم توڑ گیا۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس جیسے دلیر مجاہدین کی شجاعت اور مردانگی کے نتیجے میں امریکہ اور اسرائیل کا یہ مشترکہ اثاثہ نابودی کا شکار ہو گیا۔ مسئلہ بہت واضح ہے: دہشت گردی اور دہشت گرد گروہ بذات خود نہ اچھے ہیں اور نہ برے ہیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا خاص حالات پر منحصر ہے۔
اگر داعش، ھیئت تحریر الشام یا کوئی بھی دہشت گرد گروہ امریکہ اور اسرائیل کے تعیین کردہ دائرے میں رہ کر ایک خاص علاقے، خاص طور پر اسلامی دنیا، میں سرگرم عمل ہو تو وہ اچھی دہشت گردی ہے۔ لیکن اگر ان کی سرگرمیاں اس تعیین کردہ دائرے سے باہر نکل جائیں اور خاص طور پر مغربی دنیا جیسے امریکہ یا یورپی ممالک تک سرایت کرنے لگ جائیں تو وہ برے دہشت گرد قرار پائیں گے۔
2)۔ دوسرا نکتہ امریکہ اور ھیئت تحریر الشام کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے۔ بنیادی طور پر ان دونوں میں جدائی اور فرق کا قائل نہیں ہوا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ھیئت تحریر الشام، کم از کم اب تک کبھی بھی امریکہ کے لیے بری دہشت گردی کا مصداق قرار نہیں پایا اور نہ ہی اس نے اپنے بانی امریکیوں کی حکم عدولی کا ارتکاب کیا ہے۔
ھیئت تحریر الشام نے اپنی پیدائش سے اب تک گذشتہ ایک عشرے کے دوران حتی ایک گولی بھی اسرائیل کی طرف نہیں چلائی جبکہ شام میں قابض امریکی فوجیوں کو اپنا حامی اور اپنے مفادات کا محافظ قرار دیا ہے۔ قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ ابو محمد الجولانی اور اس کے ساتھیوں نے صوبہ قنیطرہ اور گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیلی جارحیت اور قبضے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ بہتر ہے اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کروائے۔ اس موقف کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جارح صیہونی فوج کو شام کی سرزمین میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ صدر بشار اسد حکومت کے خلاف ھیئت تحریر الشام کی بغاوت اور شام کی سرزمین پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کا ٹھیک ایک ہی وقت انجام پانا بھی بہت معنی خیز ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الجولانی اور صیہونی حکمرانوں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
امریکہ کے حکومتی وفد نے اپنی ملاقات میں ھیئت تحریر الشام کے لیے آئندہ روڈمیپ واضح کیا ہے اور خطے میں ان کی سرگرمیوں کا دائرہ کار مشخص کیا ہے۔ یاد رہے کہ شام میں ترکی اور امریکہ کے مفادات کے درمیان بھی ٹکراو پایا جاتا ہے لہذا امریکہ چاہتا ہے کہ ھیئت تحریر الشام صرف اس کے اشاروں پر ناچے اور اسے ترکی پر ترجیح دے۔ شام میں ھیئت تحریر الشام کی سربراہی میں صدر بشار اسد کے خلاف بغاوت کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی پریشانی کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ واضح ہے کہ جب ھیئت تحریر الشام کے بانی یعنی امریکہ اور خطے میں امریکی نوکر یعنی ترکی کے درمیان ٹکراو ہو گا تو ھیئت تحریر الشام اپنے بانی کا ساتھ ہی دے گا۔ لہذا امریکی دہشت گردی اور تکفیری دہشت گردی کو دو چیزیں تصور کرنا بہت بڑی غلطی ہے اور وہ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔