اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے پاراچنار کی موجودہ صورت حال پر ریاست کی پالیسی کو ماضی ہی کے ایک بدترین تجربے جیسا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں، جب خوف کے عالم میں کسی کو حرکت کی جرات نہ تھی، سیاسی جماعتیں خاموش اور مذہبی طبقات اس کا جزو بنے ہوئے تھے اور زمینیں لیکر بڑے بڑے مدرسے اور مسجدیں بنا رہے تھے اور امریکی جہاد کا حصہ بن چکے تھے، تشیع واحد جمیعت تھی جس نے اپنے حقوق کیلئے آمریت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجے میں ضیاء الحق کے دل میں کینہ بیٹھ گیا۔ اس نے فرقہ واریت کا کارڈ استعمال کیا اور اس بے بنیاد دلیل کی بنیاد پر کہ تشیع نے انقلاب ایران کی طرز پر پاکستان میں بھی یہی عمل شروع کر دیا ہے، اس نے فرقہ باز و دہشت گرد گروہ بنائے، قتل و غارت گری کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کے قتل عام پر سکوت و بے حسی کے بعد، ریاست تب حرکت میں آئی جب یہ دہشت گرد خود ریاست کیلئے خطرہ بنے۔
انہوں نے کہا کہ آج پھر ریاست کے اندر وہی دہائیوں پرانا من گھڑت تصور پیدا ہوا ہے کہ زینبیون پاراچنار میں ایران سے آئے ہیں۔ یہ شیطانی سوچ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہو رہی چونکہ فرقہ واریت اب ان کے سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ریاست بخوبی جانتی ہے کہ علاقے کی مذہبی و مسلکی ترکیب اور قبائلی تعصب کے درمیان زمینی تنازعات کو حل نہ کرنا کیا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاراچنار میں راستے نہ سنیوں نے بند کیے، نہ قبائل نے، بلکہ حکومت نے خود بند کیے ہیں۔ ریاست چاروں طرف خوارج کے مسلح دہشت گردوں کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے، لیکن پھر بھی وہاں کے عوام سے اسلحہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے ظلم و زیادتی کی بدترین مثال ہے، جہاں راستوں کی بندش، بھوک، پیاس اور بیماریوں میں مبتلا کر کے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاراچنار میں جو صورتحال پیدا کی ہے، وہ غزہ میں صیہونی ظلم کی عکاسی کرتی ہے۔ پاراچنار، شام، یمن، اور حزب اللہ پر بیک وقت حملے اسی عالمی صیہونی منصوبے کا حصہ ہیں۔ پاکستان، جو غزہ کا ساتھ دینے کا پابند تھا، خود اپنے ہی ملک میں ایک علاقے کو غزہ بنا چکا ہے اور وہاں محاصرہ کر کے نسل کشی کے حالات پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ محاصرہ عوام کا نہیں، بلکہ حکمرانوں کا ہونا چاہیے تھا، جنہوں نے عوام کو بھوک اور ظلم کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ عوام کو چاہیے کہ حکومت کی لاشوں کی سیاست کا حصہ نہ بنیں۔ قبائلی عوام کو مشتعل کرکے مسلح کارروائیوں پر مجبور کرنا حکومت کا اصلی منصوبہ ہے تاکہ وہ مزید کارروائیوں کو جواز فراہم کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فرقہ واریت سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ شیعہ اور سنی کو متحد ہو کر مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ فلسطین میں کوئی شیعہ نہیں، لیکن شیعہ ہمیشہ وہاں کے مظلوموں کے لیے کھڑے رہے ہیں اور شہید حسن نصراللہ جیسی شخصیت اس راہ میں کام آئی ہے۔ عدالتوں کو بھی اس پر نوٹس لینا چاہیے اور عوام کے حقوق بحال کرنے کے لیے حکومت کو مجبور کرنا چاہیے۔