تحریر: ارشاد حسین ناصر
وقت کا پہیہ کس قدر تیز رفتاری سے گھوم رہا ہے، احساس ہی نہیں ہوتا۔ کل کی بات ہے، لوگ 2024ء کو ویلکم کہہ رہے تھے اور آج 2025ء کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ خوش آمدید کہنے والے کسی امید پر ہوتے ہیں، کسی آس اور کسی ممکنہ مسرت و شادمانی کی توقع رکھ رہے ہوتے ہیں۔ تاریخ اور کیلنڈر بدلنے کا شاید یہ جشن مناتے لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نئے سال میں ان کے حالات بدل جائیں گے۔ ان کی تقدیر کا ستارہ انہیں خوشیوں سے سرشار کر دیگا، مگر ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کے حالات نہیں بدلتے۔ بس سورج کی آمد و رفت کا چکر چلتا ہے، دن اور راتیں تبدیل ہوتی ہیں، مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں کم نہیں ہوتیں۔ ظلم کی رسی دراز رہتی ہے جبکہ مجبور، بے کس، لاچاروں کی آہ و بکا پر سال بھر کوئی کان نہیں دھرتا۔
اس برس تو دنیا بھر کیلئے بہت بڑا امتحان اہل غزہ کی مظلومیت تھی۔ ہم نے اس برس دیکھا کہ ان مظلوموں پر ہونے والے مظالم، سفاکیت کی داستانیں، انسانی حقوق کی پائمالی، بچوں کے حقوق پر ڈاکے، مریضوں اور مراکز صحت پر ہونے والے بدترین حملوں اور انسانی المیہ کے عالم میں مرتے جیتے اہل فلسطین کی پکار پر کسی نے کان نہیں دھرے، جبکہ وہ لوگ جو کرنے کو بہت کچھ کرسکتے تھے اور کرنا چاہیے تھا، وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے تو اسرائیل نامی درندے نے اسی گذرے برس میں ایک اور اسلامی ملک لبنان پر بدترین یلغار کر دی۔ سینکڑوں بے گناہ مار دیئے، خوبصورت شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا، جبکہ مقاومت اسلامی لبنان کے قائدین جن میں سرفہرست قائد مقاومت سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین اور بہت بڑے بڑے نام ہم سے چھین لیے۔ یہ ایسے لوگ تھے، جنہیں اسرائیل نے کئی برس کی جدوجہد اور کوششوں کے بعد شہید کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس برس جدائیوں کا یہ موسم ہمیں بہت اداس کر گیا، جن کے ہونے سے گلشن میں بہاریں تھیں، امید باقی تھی، آس رکھتے تھے، یہ لوگ تو ہماری زندگی کی علامت تھے، ہم ان کے دم اور سانس کیساتھ سانس لیتے تھے، ہمیں ان کی موجودگی سے احساس زندگی رہتا تھا، مگر ان کی جدائی کے دکھ اور غم سے بھرپور اس برس کے غروب ہوتے سورج نے بجھا سا دیا ہے۔ ہم ایسے مجبور ہونگے، سوچا بھی نہ تھا۔ ہم ایسے مغموم ہونگے، یہ خیال بھی کبھی دل میں نہیں لائے تھے۔ سید کا چلے جانا ہمیں بہت گراں لگ رہا ہے۔ ہم 2025ء میں سید کے چلے جانے کے دکھ اور غم کیساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ اے ضاحیہ کے باسیوں تمہاری ہمت ہے کہ سید کے جائے شہادت پر کھڑے ہوکر اپنے اجڑے گھروں کا ماتم کرنے کے بجائے اس عزم کا اظہار کرتے نظر آئے کہ سید کا راستہ زندہ ہے، سید کا کردار زندہ ہے۔
سید کی فکر زندہ ہے، سید کی سوچ زندہ ہے، سید کے فرزندان زندہ ہیں، جو ان کے راستے، ان کی سوچ، ان کی فکر، ان کے کردار کو لے کر آگے بڑھیں گے اور ضاحیہ کے مقیمان کی ہمتوں اور حوصلوں کو سلام پیش کرتے ہیں کہ اس برس اس دکھ اور غم کیساتھ نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں کہ دشمن نے تمہارے قلب پر وار کیا، تمہارے دلوں کو شکستہ کیا ہے۔ اس کے باوجود تم نے ہمت نہیں ہاری، حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا، اپنے قدموں کو لڑکھڑانے نہیں دیا، اپنی راہ اور راستے کو نہیں بھولے، کمال لوگ ہیں، واقعی باکمال بامعرفت ہو اہل ضاحیہ کہ اپنے جوان فرزندان کے جنازوں کو اٹھاتے ناتوانی و بڑھاپے کو ظاہر نہیں ہونے دیتے اور اپنے غم کی بجائے سید کے چلے جانے کے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔
عجیب سال تھا یہ 2024ء کہ جس میں دنیا نے ایک وحشی، درندے اور سفاک غاصب و قاتل کے مظالم پر اس کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس سے تعلقات بنانے بلکہ اس سے مل کر ایک مملکت اسلامی کو اسے پلیٹ میں رکھ کر دینے کا فیصلہ کیا اور اسلامی سرزمینوں کیلئے مزید خطرات کا سامان کرنے کی سازش کا عملی حصہ بن گئے۔ سرزمین مقاومت شام پر آج عملی طور پر اسرائیل، ترکیہ کیساتھ مل کر قابض ہوچکا ہے۔ ترکیہ، قطر اور نام نہاد اسلامی و جہادی گروہوں کی سہولت کاری ہزاروں شہدائے راہیان قدس کی قربانیوں کو ملیا میٹ کرنے اور امت میں فتنوں کو فروغ دینے کا باعث بنے ہیں، مگر نام اسلام کا لیا جا رہا ہے، اسلام کو ایسا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ دنیا اس منافقت، اس غداری اس سازش کو ہی اسلام سمجھنے لگے گی۔
شام کے سقوط کی صورت میں دنیا نے مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ اب دیکھا ہے، یہ امریکہ کا بہت پرانا ایجنڈا اور سازش تھی۔ آج بظاہر امریکہ کو اس میں کامیابی ملی ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران اور مقاومت اسلامی کو شام سے نکلنا پڑا ہے، مگر ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ کا لشکر اور لشکری اس حالت کو بھی غنیمت میں تبدیل کر لیں گے۔ مخلصان خدا کی مدد و نصرت پروردگار کی طرف سے ہوگی، مگر بہت سے چہرے، شخصیات، ادارے، ممالک، ریاستیں، گروہ بے نقاب ہوئے ہیں۔ اس (2024ء) سال یہ بے نقاب ہوئے، آئندہ برس(2025ء) ان کا انجام ہو گا اور فتح حق والوں کی ہوگی، اس لیے کہ حق نے ہی غالب آنا ہے۔
اس برس ہمارے پاکستان میں بھی ایک غزہ بنایا گیا، پاراچنار، جو چھ سات لاکھ آبادی کا شہر ہے، اس کو غزہ کی مثال بنا دیا گیا۔ یہاں پر بھی اہل غزہ کی طرح اہل پاراچنار کو محصور کر دیا گیا ہے، ان پر چہار جانب سے گھیرا ڈالا گیا ہے۔ اس میں اس پاک سرزمین کے مقتدر ادارے اور حکمران مجرمانہ کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بھی اہل شام و غزہ کی طرح بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں، جو بے گناہ عوام، بچوں، بڑوں، عورتوں، ضعیفوں اور بیماروں کیلئے مشکلات پیدا کرکے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی مقاومت اور استقامت نیز شجاعت مقتدر طاقتوں کیلئے قابل قبول نہیں، لہذا انہیں سبق سکھایا جا رہا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سے اس پاک سرزمین، اس وطن عزیز، اس ریاست کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
یہ اس ملک، اس کی پاک سرزمین، اس وطن کے محافظ و نگران ہیں۔ یہ فطری طور ملکی دفاعی اداروں کے اتحادی و مددگار ہیں، مگر یہی ادارے انہیں باغی بنا رہے ہیں۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
دعا ہے کہ نیا سورج اس ملک، اس پاک سرزمین، اس امت، اس مکتب، اس دین و مذہب اور انسانیت کیلئے امن و سلامتی، عافیت و شادمانی، تحفظ کا سامان اور پیغام لیکر طلوع ہو۔ غاصبین اور ظالمین اپنے انجام سے دوچار ہوں اور منافقین، سہولت کار اپنے کیے کی سزا پاتے دیکھے جا رہے ہوں۔