0
Sunday 29 Dec 2024 20:00

محسن ملت شیخ محسن علی نجفی کی ذاتی خصوصیات اور درس تفسیر کے محاسن

محسن ملت شیخ محسن علی نجفی کی ذاتی خصوصیات اور درس تفسیر کے محاسن
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی (ایس ایم شاہ)

شیخ محسن علی نجفی کے ملت پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کے باعث آپ کو محسن ملت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ٹھوس علمی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ تفسیرِ قرآن کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے درس تفسیر میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ شریک ہوتے تھے۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ترتیبی تھی۔  ہر آیت کی تفسیر میں آپ اسی آیت سے مربوط دیگر آیات، احادیث معتبرہ اور عقلی دلائل کے علاوہ گزشتہ مفسرین کے دلائل کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے۔ آپ کی تفسیر کی انفرادیت یہ تھی کہ آپ مکمل عصری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا کرتے تھے۔ دوران تفسیر استدلال کے لیے ایک آیت کی تفسیر میں شاہد کے عنوان سے دیگر آیتوں کی ایسی تلاوت کرتے, جس سے آپ حافظ قرآن محسوس ہوتے تھے۔ انسان کی خلقت کے عجائبات، کلوننگ، سیلز جیسی سائنسی اصطلاحات پر ایسی سیر حاصل گفتگو کرتے کہ آپ سائنس دان لگتے تھے۔

"شبہہ آکل و مأکول" جیسی عقلی مباحث کو حل کرتے ہوئے متقن دلائل کے ساتھ ایسے جامع انداز سے استدلال کرتے، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ ماہر علم کلام، فلاسفر اور منطقی ہیں۔ انسانی صحت کے اصول اور ورزش کی اہمیت ایسے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے کہ آپ ایک ماہر ڈاکٹر محسوس ہوتے تھے۔ معاشرتی ضروریات، مشکلات اور ان کے حل پر ایسی پُرمغز گفتگو کرتے کہ آپ سوشیالوجسٹ معلوم ہوتے تھے۔ علم عرفان کے بارے میں ایسے لطیف نکات بیان کرتے تھے کہ آپ ایک عارفِ کامل معلوم ہوتے تھے۔ جب اخلاقی مباحث میں وارد ہوتے اور انسان کے سیر تکاملی اور سیر تنزلی پر بحث کرتے تھے تو آپ اخلاق نظری اور اخلاق عملی کے ماہر استاد اور پیکر اخلاق ہونا ثابت ہوتے تھے۔ فقہی مباحث میں آپ ایسے مدلل انداز سے بحث کرتے تھے کہ آپ فقیہ عصر معلوم ہوتے تھے۔ احساس کمتری کے انسانی شخصیت پر منفی اثرات، انسانی زندگی میں خود اعتمادی کی اہمیت، اپنے اندر خود اعتمادی ایجاد کرنے کے طریقے اور خودی کو پروان چڑھانے کا طریقہ کار سمیت دیگر اہم نفسیاتی اصولوں کی ایسی وضاحت کرتے تھے کہ آپ بہترین سائیکالوجسٹ معلوم ہوتے تھے۔

آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارا اکثر وقت ضائع چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتا ہوں تو اس کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اتنی ساری مصروفیات کے باوجود بھی میرا کافی وقت ضائع چلا جاتا ہے۔ آپ مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان "نفس الانسان خطاہ الی اجلہ" یعنی انسان کا ہر سانس موت کی طرف ایک قدم ہے" سے استشہاد کیا کرتے تھے۔ "یعنی انسان کا ہر سانس اسے موت کے قریب کر رہا ہے۔" اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ضائع ہو رہا ہے، لیکن اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ آپ کا درس تفسیر اتنا جامع ہوتا تھا کہ ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا معلوم ہوتا تھا۔ اعتقادی عمیق مسائل کی گتھیوں کو خوبصورت مثالوں سے سلجھانا آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ اپنے اکثر دروس کے دوران میں کہا کرتے تھے کہ یہ علمی نکات فقط آپ طلبہ سے شیئر کر رہا ہوں، لیکن میں نے ان مباحث کو اپنی تفسیر میں نہیں چھیڑا ہے۔ کیونکہ ایسی بحثیں عوام کی فہم و  فراست سے بالاتر ہیں۔

آپ کے ہاں جادۂ علم ہمیشہ بچھا رہتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ شخصیات آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اپنے شعبے سے متعلق آپ سے رہنمائی لیتی تھیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ دن کو درس و تدریس اور مہمانوں سے ملاقات سمیت دیگر مصروفیات کے باعث آپ مطالعے کے لیے زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے، لہذا اس کمی کا ازالہ آپ رات کے مطالعے سے کر لیتے تھے۔ رات کو آپ دو تین بجے تک مصروفِ تحقیق و مطالعہ رہتے تھے۔ خصوصاً قرآنیات کے لیے تو گویا آپ نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ رات کے مطالعے اور تحقیق کا محور قرآن مجید ہوا کرتا تھا۔ ذوقِ مطالعہ اور ذوقِ تحقیق کے باعث آپ ہمیشہ جامعۃ اہل البیت اسلام آباد کی دوسری منزل پر واقع ایک کمرے میں محوِ تحقیق رہتے تھے۔ میں نے آپ کو مذکورہ کمرے اور جامعۃ الکوثر اسلام آباد کے ایک کمرے میں ہمیشہ مطالعہ اور تحقیق کرتے ہوئے پایا۔ میں نے اپنی علمی زندگی میں کبھی آپ کو بری امام میں موجود آپ کے سادہ مکان میں بھی مکین نہیں پایا۔ گویا علمی تحقیق اور دین کی خدمت کے لیے آپ نے دن رات ایک کر دی تھی۔

آپ کی اتنی ساری مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے جامعۃ الکوثر میں اپنے درس تفسیر کی کلاس کو کبھی مس نہیں کیا۔ ہر روز پابندی وقت کے ساتھ جامعۃ اہل البیت سے جامعۃ الکوثر آنے کے باعث آپ کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔ یہاں تک کہ حساس اداروں کی جانب سے آپ کو نوٹس بھی موصول ہوا کہ آپ پابندی وقت کے ساتھ روزانہ ایاب و ذہاب سے اجتناب کریں، کیونکہ دہشتگردوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر درسی سلسلے میں خلل آنے نہیں دیا۔ پڑھاتے وقت آپ کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ چونکہ آپ کے درس میں طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی تھی، لہذا آپ طلبہ کی توجہ درس کی طرف مبذول کرانے کے لیے اچانک کوئی علمی سوال اٹھاتے تھے اور طلبہ سے اس کا جواب دریافت کرتے تھے۔ پھر آپ خود ان سوالوں اور اشکالات کے مفصل و مدلل جواب دیتے تھے۔

آپ اپنے درس تفسیر میں اکثر کہا کرتے تھے، اے طالب علموں! اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر بجا لاؤ کہ آج آپ کے لیے حصولِ علم کی راہ میں درکار تمام سہولتیں میسر ہیں۔ جب ہم نجف اشرف میں باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں علوم آل محمد سے فیضیاب ہو رہے تھے تو اس وقت ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا تھا۔ کھانے پینے کے مسائل، مطالعے اور مباحثے کے لیے لائٹنگ کے مسائل غرض ہر طرف مسائل کے انبار نظر آتے تھے۔ ایک دفعہ جب کھانے کے لیے روٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اتنا جلا ہوا نان تھا کہ انگلیوں کے نشان اس پر پیوست ہوگئے۔ اس وقت کے علماء بسا اوقات تربوز کے چھلکے کھا کر اور مطالعے کے لیے سٹریٹ لائٹوں سے استفادہ کرکے اپنا ذوق مطالعہ پورا کرتے تھے۔ بحث جب تبلیغ دین سے مربوط آیتوں پر پہنچتی تھی تو آپ مخاطب شناسی اور مخاطب کے نزدیک مسلمات کا سہارا لیکر استدلال کرنے پر زور دیتے تھے اور ایسے دلنشین واقعات پیش کرتے تھے، جو دل کی تختی پر ہمیشہ کندہ رہیں گے۔

آپ کی عبادت:
آپ تہجد گزار اور شب زندہ دار تھے۔ رات گئے تک محو تحقیق و مطالعہ رہنے کے بعد معمولی استراحت کرکے آپ نماز تہجد کے لیے اٹھتے تھے اور تنہائی میں ذات احدیت سے راز و نیاز میں مگن رہتے تھے۔ آپ اپنے دروس میں اپنے شاگردوں کے لیے بھی نماز تہجد بجا لانے کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ پنجگانہ نمازوں کے لیے جب بھی اذان ہوتی تو آپ اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے وقت فضیلت میں نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ خواہ آپ کا ملاقاتی کتنی ہی بڑی شخصیت  کیوں نہ ہو۔ کیونکہ جب خدا کو یاد کرنے کا وقت آتا ہے تو بندگان خدا سے مرد مؤمن کا رابطہ کٹ جاتا ہے۔

آپ کی غریب پروری:
غریبوں کی مدد کرنا تو آپ کا شیوہ تھا۔ آپ کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے تھے۔ جامعہ اہل بیت میں ایک کمرہ مہمانوں کے لیے مختص تھا۔ جس میں ہر طبقے کے افراد خصوصاً غریب اور وہ بیمار مقیم رہتے تھے، جو ملک کے دور دراز علاقوں سے علاج معالجے کے لیے اسلام آباد آتے تھے۔ آپ اپنے درس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ تعلیمی اداروں کو چلانے میں مجھے مشکلات کا سامنا نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ جامعہ اہل بیت کے مہمان خانے میں اقامت پذیر وہ مہمان ہیں، جن کی مشکلات میرے ذریعے حل ہو رہی ہیں۔ بعض افراد مجھے تجویز دے رہے ہیں کہ جامعۃ اہل البیت میں مہمانوں کی رفت و آمد کے باعث مدرسے کے تعلیمی نظام میں خلل ایجاد ہوتا ہے، لہذا مہمانوں کے لیے قیام و طعام کا بندوبست بند کیا جائے تو میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ جہاں میری وجہ سے مہمانوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں، وہاں اللہ تعالٰی ان کی وساطت سے میری مشکلات کو حل فرما رہا ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے عشق:
آپ عاشق اہل بیت تھے۔ جب بھی جامعہ اہل بیت کو چلانے کے لیے آپ کو مالی مشکلات کا سامنا ہوتا تو آپ طلبہ کو روزانہ کی بنیاد پر زیارت عاشورا پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ اس سے مدرسے کے مالی مسائل خود بخود حل ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ دوران درس آپ سے سوال ہوا آغا صاحب کیا آپ نے مدینہ اہل بیت سکردو ایک خاص طبقے کے لیے بنایا ہے تو آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: نہیں لیکن ہم نے اس کالونی کا نام ایسا رکھا ہے کہ دشمن اہل بیت اس کا نام دیکھ کر ہی دور بھاگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب 2003ء میں عراق ڈکٹیٹر صدام کے ہاتھ سے آزاد ہوا تو ایک معزز شخص حرم حضرت عباس علیہ السلام کا علم لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے خصوصی تلقین کی کہ یہ علم میرے کمرے میں ایک رات ضرور رکھنا، تاکہ یہ میرے لیے برکات کے نزول کا سبب قرار پائے۔ بلتستان سے تعلق رکھنے والے ملک کے مشہور منقبت خوان سید سراج رضوی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کی شان میں اپنی پرتاثیر آواز میں جب منقبت پڑھی تو اس سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ اسے اپنے پاس بلا کر آپ نے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا اور اس کی کان میں سرگوشی کی کہ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد یہی منقبت میری قبر پر حاضر ہو کر بھی پڑھنا۔

آپ کی سادہ زیستی:
آپ بہت ہی سادہ مگر پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ معمولی سا واسکٹ  جس کی جیب میں آپ اپنے ذاتی خرچے کے لیے مختصر رقم رکھا کرتے تھے۔ اپنے کسی عزیز کو ذاتی خرچے کے لیے کچھ دینا ہوتا تو آپ اسی جیب سے بمشکل پرانا سا نوٹ نکال لیتے تھے۔ آپ کا کھانا بھی بلتستان کا دیسی اور سادہ کھانا ہوتا تھا۔ البتہ آپ اپنے دروس میں طلبہ کو تلقین کرتے رہتے تھے کہ انسان کو مناسب کھانا، کھانا چاہیئے اور مناسب لباس پہننا چاہیئے، کیونکہ خدا کی ذات وہ کریم ذات ہے، جس کی شان کریمی کے خلاف ہے کہ وہ اپنے بندے سے کل روز قیامت سوال کرے کہ تم نے کونسا کھانا کھایا اور کونسا لباس پہنا۔

آپ کی سیاسی بصیرت:
آپ ایک بصیر سیاست دان تھے۔ البتہ عملی طور پر سیاسی میدان میں قدم نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جونہی دشمنوں کی طرف سے مکتب حقہ کے خلاف کوئی سازش ہوتی تو آپ نڈر ہوکر ٹھوس عملی اقدامات اٹھاتے تھے۔ اس کی عملی مثال آپ کی رحلت سے ایک سال قبل کا واقعہ ہے کہ جب ایک خاص منصوبے کے تحت برطانیہ سے ایک غالی ذاکر کو اسلام آباد میں بلایا گیا، تاکہ مسلمانوں کو آپس میں دست بہ گریبان کیا جائے۔ جب وہ شخص غلو آمیز تقریر کرکے نفرت کی بیج بو کر واپس برطانیہ گیا تو آپ نے فوراً مسجد و امام بارگاہ امام صادق کراچی کمپنی اسلام آباد میں علماء و ذاکرین کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس میں پورے ملک سے برجستہ علماء اور معروف ذاکرین کو مدعو کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں حکومت اور حساس اداروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ نفرت کا بیج آپ بو رہے ہیں۔ ہم نے نفرت آمیز اور غلو آمیز تقریریں کرنے کے باعث جس شخص کو ملک سے بھگا دیا تھا، اسے آپ نے خود دعوت دیکر واپس بلایا ہے۔ لہذا ملک کے حالات خراب کرنے کے مکمل ذمہ دار آپ ہیں۔ اس کے بعد کسی کو بھی ایسے فرد کو دوبارہ ملک میں لانے کی ہمت نہیں ہوئی۔

ملک کی تمام مذہبی پارٹیوں کے سربراہ آپ کو اپنا سرپرست مانتے تھے اور ہر مشکل مرحلے میں آپ سے مشاورت کرنے کے بعد اپنا موقف اپناتے تھے۔ غرض آپ بین المؤمنین اتحاد کا وہ مرکزی نقطہ تھے، جس پر ملک کے پانچ کروڑ شیعہ جمع ہو جاتے تھے۔ مذہبی جماعتوں کے آپس میں جب بھی کسی مورد میں اختلاف ایجاد ہوتا تو آپ ان کے سربراہوں کو اپنے پاس بلاتے اور اختلاف کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل و فصل کر دیتے تھے۔ غرض ملت تشیع میں آپ کی حیثیت اس نقطہ مرکزی کی تھی، جو ملت کی تمام اکائیوں کو آپس میں ملائے رکھتی تھی اور ملت کا شیرازہ کبھی بکھرنے نہیں دیتی تھی۔ غرض آپ کی متوازن شخصیت ہر جگہ برقرار رہتی تھی۔ آپ کسی بھی مورد میں جذباتیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے معقول اور متوازن اقدام اٹھاتے تھے۔ جہاں آپ کا احترام ایک برجستہ شیعہ عالم دین ہونے کے ناطے ملک بھر کے شیعوں کے نزدیک ہر دل عزیز تھا، وہیں آپ کی متوازن شخصیت کے باعث تمام مکاتب فکر کے علماء کے نزدیک آپ بے حد مقبول تھے۔ ملکی لیول پر حکومت کی جانب سے جب بھی کسی مورد میں شیعہ موقف جاننے کی ضرورت پیش آتی تو سب سے پہلے آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔

آپ کی تواضع
آپ پیکر تواضع تھے۔ آپ تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے محترمانہ سلوک کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے دروس میں بھی طلبہ کو تواضع کی تلقین کرتے رہتے تھے اور تواضع کی اہمیت کے لیے اس حدیث سے استشہاد کرتے تھے: التواضع لایحسد" تواضع ایک ایسی صفت ہے، جس سے کوئی حسد نہیں کرتا۔

آپ کا اخلاق اور بچوں سے محبت
آپ کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ جب بھی آپ کے پاس کوئی ملاقاتی آتا تو آپ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ آپ بچوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ ان کو گود میں اٹھاتے تھے۔ ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے تھے۔ ان کا حال احوال دریافت کرتے تھے۔ ان سے مذاق کرتے تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان کو رقمی صورت میں ہدیہ دیا کرتے تھے۔

اپنے شاگردوں کے ساتھ رابطہ
آپ اپنے شاگردوں کو شفقت پدری فراہم کرتے تھے۔ ان کی عزت نفس کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ ان کی خودی کو بہترین انداز سے پروان چڑھاتے تھے۔ آپ بلاناغہ ہر روز ورزش کیا کرتے تھے اور طلبہ کو بھی ورزش کی تلقین کرتے تھے۔ ورزش کی اہمیت کے لیے آپ اس حدیثِ شریف "ان علیک لبدنک حقٌ" یعنی تمہارے اوپر تمہارے بدن کا بھی حق ہے، سے استناد کرتے تھے۔ مستقبل کے حوالے سے آپ طلبہ کی بہترین انداز سے کیرئیر سازی کرتے تھے اور تاکید کرتے تھے کہ اے میرے شاگردوں! آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ آپ کے لیے رہنمائی کرنے والے میسر ہیں۔ ہمیں کوئی گائیڈ لائن فراہم کرنے والا نصیب نہیں ہوا۔ اپنا ہدف پاکیزہ اور بلند رکھو اور ابھی سے ہی اس کے لیے کوشش شروع کرو۔ آپ اکثر اپنے درس میں تلقین کیا کرتے تھے کہ اپنے ذہن سے نوکری کا لفظ ہی نکال دو، نوکری یعنی کسی کا نوکر۔ ہم آپ کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ آپ کو کسی کا نوکر بنانے کے لیے نہیں اٹھائے ہیں بلکہ ہم چاہتے کہ یہاں سے قوم کے لیے لیڈر تیار ہوں۔

جب آپ قوم کے لیڈر بنیں گے اور مختلف میدانوں میں لوگوں کی تعلیم و تربیت، صحت اور دیگر فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گے، تب آپ کو نوکری کرنے والوں کی ضرورت پیش آئے گی، یوں دوسرے آپ کے پاس نوکری کریں گے۔ آپ طلبہ کی ہر مشکل کو حل کرتے تھے۔ خواہ مالی مشکلات ہو یا صحت کے مسائل، گھریلو معاملات ہوں یا شادی بیاہ کے امور، غرض طلبہ کی ہر مشکل کی گھڑی میں آپ حقیقی مسیحا ثابت ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے شاگردوں میں سے کسی کے اعزہ و اقارب میں سے بھی کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ ان کے دلوں کے ڈھارس بن جاتے، ان کی مالی مدد کرتے، انہیں حوصلہ دیتے، انہیں امید کی کرن روشن رکھنے کی ہدایت کرتے، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں موجود حاذق ڈاکٹروں سے رابطے کرکے ان کے مسائل حل کرتے۔

غرض آپ اپنے شاگردوں کے لیے حقیقی روحانی باپ تھے۔ 9 جنوری 2024ء کا دن ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم، ملت تشیع کے لیے بالخصوص اور آپ کے شاگردوں کے لیے بالاخص بہت ہی کٹھن دن تھا، جب اچانک اتحاد بین المسلمین کے بہترین عملی  داعی، ملت تشیع پاکستان کے سرپرست، ہزاروں یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور بے سہاروں کا سہارا اور ہزاروں شاگردوں کا روحانی باپ اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گیا۔ آپ کو اپنی وصیت کے مطابق اسلام آباد کے قلب میں موجود مثالی اعلیٰ تعلیمی درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۃ الکوثر میں سپرد خاک کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 1181257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش