تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
بائیولوجیکل وار یا حیاتیاتی جنگ کی اصطلاح تو عرصے سے استعمال ہو رہی ہے، لیکن بائیولوجیکل ٹیررازم کی اصطلاح کچھ عرصہ سے تواتر سے میڈیا میں سامنے آرہی ہے۔ دوسری جنگوں کی طرح اس برائی میں بھی امریکہ بہادر کا نام سرفہرست ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں میں وہ تمام مائکروجنزم (جیسے بیکٹیریا، وائرس، یا فنگس) یا ٹاکسن (مائیکروجنزم کے ذریعہ تیار کردہ زہریلے مرکبات) شامل ہیں، جو انسانوں کو مارنے یا نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو انفرادی قتل کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں کو مارنے اور نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کی تشکیل کے آغاز سے ہی اس کے استعمال کا بنیادی مقصد دشمن قوتوں کو انسانی جانی نقصان پہنچانا تھا۔ آج اس طرح کی جنگ کے کئی نمونے اور مثالیں موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں بھی حملوں کا مقصد یا حیاتیاتی اقدامات کا مقصد دشمن کے لوگوں کو ہی مارنا تھا، لیکن اب اس جنگ کے نئے ماڈلز سامنے آرہے ہیں اور ان میں سے ایک ماڈل کو بائیو ٹیررازم کہا جاتا ہے۔
حیاتی دہشت گردی یا بائیو ٹیررازم مخصوص افراد، شخصیات، کمانڈروں، حکام یا صدور کو قتل کرنے یا حکومتوں کو دھمکانے اور بلیک میل کرنے کے لیے جان بوجھ کر جانداروں، جرثوموں، وائرسوں اور زہروں کا استعمال میں لایا جاتا ہے۔ حیاتیاتی جنگ کے ایک اور ماڈل میں انسانی خوراک کو وائرس کے حملے یا انسانوں اور جانوروں کی مشترکہ بیماریوں کو حیاتیاتی آلات کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ اس طرح کے حملے حالیہ دہائیوں میں بڑھے ہیں۔ جنگوں کے اس ماڈل کا مقصد دشمن ممالک کی معیشتوں کو بنیادی ضربیں پہنچانا ہوتا ہے۔ ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ چین میں 2002ء اور 2003ء میں سارس وائرس کا پھیلنا اس ملک پر ایک حیاتیاتی اقتصادی حملہ تھا، جس کا مقصد اس کی معیشت کو تباہ کرنا تھا۔ حیاتیاتی ہتھیاروں میں کچھ خاص خصوصیات ہوتی ہیں، جیسے اموات کی شرح تو کم ہوتی ہے، لیکن بیماری زیادہ وبائی ہوتی ہے۔
اس جنگ میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان بیماریوں کا اشتراک پیدا کرکے ادویات اور ویکسین کی کمی نیز تشخیصی کٹس کو ناپید کر دیا جاتا ہے، جس سے اس ملک میں خوف و ہراس اور بدامنی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کے ماڈل کا سامنا کرنے والے ممالک میں عام طور پر موت کی شرح کم اور پھیلنے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ماحول حیاتیاتی ایجنٹوں سے آلودہ ہوتا ہے تو یہ انسانی آبادی کے لیے ایک طویل مدتی اور بہت وسیع خطرہ پیدا کرسکتا ہے، جس کی واضح مثال گذشتہ برسوں میں کورونا وائرس کی وبا اور کووڈ-19 کی بیماری ہے۔ اس وبا کی وجہ سے پوری دنیا پر جو اثرات مرتب ہوئے، اس وجہ سے اس واقعہ کو انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ متاثر کن واقعات میں سے ایک کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔
گویا اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بائیولوجیکل حملہ کسی دوسرے غیر روایتی ہتھیار سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ سابق امریکی وزیر دفاع "ولیم کوہن" نے اس تناظر میں کہا ہے کہ 100 کلو گرام اینتھراکس کے ساتھ دہشت گردانہ حملہ ایک میگاٹن کے ایٹمی بم سے چھ گنا زیادہ مہلک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1925ء کے جنیوا کنونشن اور 1975ء کے حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کی بنیاد پر، حیاتیاتی یا مائکروبیل ہتھیاروں کی تیاری اور ترقی ممنوع ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کی ترقی میں امریکہ کی تاریخ
امریکی فوج نے دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیق اور ترقی شروع کر دی تھی۔ 1943ء میں، یو ایس آرمی ہیلتھ کمانڈ نے میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک فوجی اڈے کی توسیع کے ساتھ ایک ملین ڈالر سے زیادہ کے بجٹ سے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تجربہ گاہیں کھولیں، جس کا رقبہ اب 490 ہیکٹر ہے۔ اس پروگرام کا مقصد حیاتیاتی حملوں کے خلاف دفاعی طریقہ کار اور اسی قسم کے جوابی حملوں کے امکانات کو حاصل کرنا تھا۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک اس اڈے کی لیبارٹریوں نے بہت سے پیتھوجینک بیماریوں پر تحقیق شروع کر دی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکومت کی طرف سے یہ تحقیق مزید وسیع اور مؤثر ہوگئی اور انسانوں پر بھی تجربات شروع کر دیئے گئے۔ اس فوجی تحقیقی مرکز میں انسانوں پر مختلف وائرس اور بیکٹیریا کا تجربہ کیا گیا، جنہیں بعض اوقات اس موضوع کا علم تک نہیں ہوتا تھا۔
افریقہ، ویت نام، کیوبا، شمالی کوریا، یورپ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں تحقیق کے نتائج کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ہزاروں فوجی اور عام شہری بھی اس قسم کے تجربات کا نشانہ بنے۔ اس پروگرام کو 1969ء تک فورٹ ڈیٹرک بیس کی لیبارٹریوں میں آگے بڑھایا گیا، 1970ء میں امریکہ نے بظاہر حیاتیاتی ہتھیاروں اور اس شعبے میں تحقیق کو ترک کر دیا۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے تحقیقی مرکز کے اہداف بظاہر ویکسین تیار کرنا اور متعدی امراض کو روکنا قرار دیا گیا۔ بظاہر مختلف بیماریوں پر تحقیق میں تبدیلی آئی، لیکن بائیولوجیکل وار کی تیاری کا سلسلہ جاری رہا، البتہ بائیولوجیکل ہتھیاروں کے اس پروگرام کو خفیہ طور پر آگے بڑھایا گیا۔
11 ستمبر کے واقعے کے بعد، "جارج ڈبلیو بش" کی نیو کنزرویٹو انتظامیہ نے غیر متوقع طور پر حیاتیاتی ہتھیاروں پر نئی تحقیق کرنے کے لیے ایک بہت بڑا بجٹ مختص کیا اور اس بجٹ کا زیادہ تر حصہ فورٹ ڈیٹرک بیس کی لیبارٹریوں کو فراہم کیا گیا۔ اینتھراکس سے متاثرہ خطوط بھیجنے کا متنازعہ مسئلہ امریکی حکام کے لیے ایک بہانہ بن گیا کہ وہ لوگوں اور امریکی کانگریس کے نمائندوں کو یہ کہہ کر قائل کریں کہ وہ ان اخراجات کو کم نہ کریں جو ادویات کی تیاری پر خرچ کیے جانے والے تھے۔ یہ دعویٰ کرکے کانگریس اور فیصلہ ساز اداروں کو مجبور کیا گیا کہ چونکہ دشمن حیاتیاتی ادویات کا استعمال کر رہا ہے اور ہمیں جوابی حملے کی تیاری کرنی چاہیئے۔یوں امریکہ نے متاثرہ مریضوں کے علاج اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے مقابلے نیز تحقیق کے نام پر بائیولوجیکل ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔
بش انتظامیہ کے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق کو بحال کرنے اور تیار کرنے کے حکم کے بعد، امریکی فوج نے فورٹ ڈیٹرک کے ملٹری انسٹی ٹیوٹ آف انفیکٹو ڈیزیز کو ایک نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا، جو ظاہری طور پر حیاتیاتی دفاعی سرگرمیوں کے ایک بڑے کمپلیکس کا حصہ تھی۔ اس وقت امریکی فوج نے ایک بیان شائع کرکے اعلان کیا تھا کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے شعبے میں تحقیق کی ترقی صرف دفاعی اقدامات کے مطابق کی گئی ہے اور اس میں کسی قسم کا جارحانہ پہلو نہیں ہے۔ فورٹ ڈیٹرک فوجی اڈے کی تجربہ گاہوں میں تقریباً 1,800 سائنسدان اور ماہرین خطرناک حیاتیاتی ایجنٹوں جیسے بیکٹیریا اور وائرس پر کام کر رہے ہیں۔
امریکی فوج کا دعویٰ ہے کہ ویکسین کی تیاری کے شعبے میں وہ صرف دفاعی اقدامات انجام دیتا ہے، لیکن امریکہ نے بارہا اپنے غیر ملکی دشمنوں کے خلاف بائیولوجیکل ایجنٹس کا استعمال کیا ہے۔ امریکی فوج کی طرف سے حیاتیاتی ہتھیاروں میں متاثرہ جراثیموں کو استعمال کرنے کی باقاعدہ تاریخ ہے۔ 1954ء میں امریکی فوج نے جراثیم سے متاثرہ بموں کا تجربہ کیا۔ اس تجربے کے چند سال بعد، سوویت یونین نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے یہ بم چین اور شمالی کوریا کے خلاف استعمال کئے۔ 1981ء میں، کیوبا کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس کے 300,000 شہری ڈینگی بخار سے متاثر ہوئے، ڈینگی ایک وائرل بیماری ہے۔ اس میں مبتلا افراد مسلسل خون بہنے سے مر جاتے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے ان دونوں ممالک میں ڈینگی بخار کی وبا پھیلانے کے لیے لوگوں کو پاکستان اور افغانستان بھیجا تھا۔ 1983ء میں، امریکہ نے عراق کو ایران کے خلاف مسلح کرنے کے لیے صدام کی حکومت کو بائیولوجیکل ہتھیار فراہم کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن نے گذشتہ چند دہائیوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں حیاتیاتی جراثیموں سے متعلق سہولیات قائم کرنے کی عالمی کوشش شروع کی ہے، جس کے دنیا کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔