اسلام ٹائمز۔ اردو اکیڈمی دہلی کے زیر اہتمام "بانگ درا" کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ افتتاحی تقریب میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال (رہ) سے پہلے اردو نظموں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ انہوں نے کہا کہ موضوع و اسلوب دونوں اعتبار سے علامہ اقبال اپنی نظموں میں منفرد و یکتا نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نظموں میں متضاد کیفیات و منظرنگاری کو پیش کرتے ہیں، اگرچہ وہ انگریزی مفکرین سے متاثر تھے لیکن انہوں نے اپنی شاعری کو قرآن اور اسوہ رسول پر مرکوز رکھا۔ بطور مہمانِ خصوصی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال جتنے اہم کل تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے جس نظام کا خواب دیکھا وہ نظامِ عدل و انصاف تھا جو اسلام پر مبنی تھا۔
صدراتی خطاب میں پروفیسر عبدالحق نے اردو اکادمی دہلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس ادارہ کی اولیت ہے کہ اس قسم کا پروگرام منعقد کیا۔ انہوں نے بانگ درا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانگ درا ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیسویں صدی کی ابتدائی پچیس سال کی ہندوستانی تاریخ کی تخلیقی مثال ہے، اسی زمانے میں علامہ اقبال پہلا شاعر ہیں، جس کے اشعار محاوروں کی شکل میں زبان زد و عام ہوئے۔ پروفیسر خالد علوی نے تمام مقالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے تضادات کا خوب استعمال کیا ہے۔ گیان چند جین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بانگِ درا کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانِ غالب اٹھارہا ہے تو مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں آج بھی کچھ اشارات ایسے ہیں جن کے جوابات نہیں ملتے ہیں، اگر ہم جوابات ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔