تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
جامعۃ الرضا اسلام آباد میں ان دنوں ایک ورکشاپ جاری ہے۔ ورکشاپ کا موضوع ہے "سوشل میڈیا اور تبلیغی تربیت۔" ورکشاپ کا اہتمام مجلس علمائے مکتب اہل بیت پاکستان نے کیا ہے۔ اس ورکشاب میں تبلیغ اور اکیسویں صدی کے چیلنجز، ایک مبلغ کی ڈیجیٹل تبلیغی وسائل سے آشنائی، ڈیجیٹل لٹریسی، وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر کلاسز ہو رہی ہیں۔ ان موضوعات اور اس ورکشاپ کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے ایک خاص قسم کی ذہانت درکار ہے۔ یہ وہ ذہانت ہے، جو وقت اور مشکل سے پہلے انسان کو سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کیلئے بیدار کرتی ہے۔ مغرب سے سائنس اور ٹیکنالوجی نیز علومِ انسانی کے نام پر جو کچھ درآمد کیا جا رہا ہے، وہ جہاں وقت اور انسان کی ضرورت ہے، وہیں اپنے ہمراہ یہ سوال بھی لئے ہوئے ہے کہ جب انسان کی ساری ضروریات مغربی علومِ انسانی اور سائنس و ٹیکنالوجی نے ہی پوری کرنی ہیں تو پھر دین کس درد کی دوا ہے۔؟
اصل میں تو انسان کی ساری ضروریات پوری کرنا دین کی ذمہ داری ہے، اب یہی کام علومِ انسانی اور سائنس و ٹیکنالوجی نے کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ امر اظہر من الشّمس ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی بھی دین کے پیروکار جس طرح علومِ انسانی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی پیروی کر رہے ہیں، اس طرح اپنے اپنے دین کی پیروی نہیں کر رہے۔ ہمارا یہ دور اور یہ زمانہ ہر دین کے علمبرداروں خصوصاً دین اسلام کے علمائے کرام کے سامنے یہ سوال بار بار اٹھا رہا ہے کہ کیا علومِ انسانی اور سائنس و ٹیکنالوجی کو دین کا متبادل سمجھ کر اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے؟ یا پھر کیا تمام علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی پر میڈ اِن اسلام کی مُہر لگا دی جائے؟ یعنی جو بھی کوئی ایجاد، اختراع اور علمی نظریہ سامنے آئے تو یہ کہہ دیا جائے کہ یہ سب تو ماضی کے مسلمان سکالرز کی وجہ سے ہے، لہذا یہ سب اسلامی ہے۔؟
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جدید انسانی علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں سے جو کچھ ہماری سوچ اور فہم کے مطابق اسلامی ہے، اسے لے لیا جاِئے اور باقی سب کو کفر اور شرک قرار دے دیا جائے؟ اگر ایسا کیا جائے تو پھر خود علمائے کرام کے نزدیک جیسے آج تک دینی مسائل پر ہی اتفاق نہیں، ویسے ہی سائنسی مسائل پر بھی ان کا اتفاق ناممکن ہے اور وہ عالمِ بشریت کو دین اور سائنس کے حوالے سے ہرگز کسی متفقہ نکتے پر قائل نہیں کر پائیں گے۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا، اُس کی مخالفت کو ضروری سمجھتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نہ جاننے اور نہ سمجھنے کے باعث دیندار طبقہ اس کی مخالفت کرکے اپنا اور لوگوں کا نقصان کر بیٹھے۔ خصوصاً اب جبکہ مصنوعی ذہانت "آرٹیفیشل انٹیلیجنس" کا سیلاب آچکا ہے اور یہ سیلاب اپنے ہمراہ بہت بڑا علمی انقلاب لئے ہوئے ہے۔
ہمارے علمائے کرام کو آنے والے کل سے پہلے ہی یہ طے کرنا ہے کہ کیا ذہانت بھی قدرتی وسائل کی مانند کوئی خداداد خزانہ ہے؟ کیا دینی طالب علموں میں موجود اس خزانے کو دریافت کرنا، اس کی پیمائش کرکے طالب علموں کی درست سمت میں تربیّت بھی ممکن ہے؟ کیا انسان کی جسمانی اور ذہنی عمر میں فرق ہوتا ہے؟ کیا کچھ ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے انسان کی ذہانت میں بہت زیادہ کمی یا اضافہ ہوسکتا ہے۔؟ کیا ایک ریاست، معاشرے، سماج یا کمیونٹی کی بھی مجموعی ذہانت ہوتی ہے اور اس کی کوئی سطح معیّن کی جاسکتی ہے۔؟ انسان کی ذہنی عمر یعنی ذہانت کی پیمائش کے لئے الفرڈ بینٹ نے آئی کیو (IQ) نامی ۱۹۰۵ء میں ایک نظریہ دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ انسان کی قدرتی زندگی کے مقدمات و مراحل کی مانند اُس کی ذہنی عمر کے بھی مقدمات و مراحل ہوتے ہیں۔
یوں ممکن ہے کہ جسمانی اور طبعی عمر کے کئی مقدمات و مراحل گزارنے والا ایک عمر رسیدہ شخص ذہانت کے اعتبار سے کسی نوعمر اور نوجوان لڑکے سے بہت پیچھے اور عقب ماندہ ہو۔ اسی طرح سماجی ذہانت اور مشکلات سے نمٹنے اور حالات پر قابو پانے کی ذہانت کے نظریات بھی موجود ہیں۔ اس وقت جب ہم ان سوالات پر غور و فکر کر رہے ہیں تو ہمارے ارد گرد لاکھوں لوگ یہ کھوج لگانے میں مشغول ہیں کہ اگلے چند سالوں میں جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور دورہ ہوگا تو ذہانت پر قبضے کی جنگ ایک مقبول تجارت کی شکل اختیار کر لے گی۔ اس وقت ہمیں کون کون سے علوم و فنون چاہیئے ہونگے۔؟ اُس وقت جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بدولت علم، انسان، تجارت اور ذہانت کی تعریف بدل جائے گی تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس "اجتہاد" پر کیا اثرات ڈالے گی۔؟
کیا انسان دینی مسائل میں کسی مجتہد کا سراغ ڈھونڈنے کے بجائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مدد لے گا؟ جیسے ابھی ریاضی میں کیلکولیٹر سے یا دیگر امور میں گوگل یا کسی دوسرے سرچ انجن سے مدد لی جاتی ہے۔ جب دین تک انسان کی دسترسی اتنی آسان ہو جائے گی تو کیا پھر بھی کسی دیندار انسان کو اجتہاد و تقلید کی قدیم روش پر باقی رکھنا ضروری ہوگا۔؟ جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس دینی معلومات میں ایک عام انسان سے آگے نکل جائے گی تو کیا ایک دینی طالب علم کے نصابِ تعلیم پر جو اثر پڑے گا، اُس کیلئے آج ہماری دینی دنیا آمادہ ہے۔؟ یہ بات بہت پیچیدہ ہے کہ جب انسان مشین بن جائے گا اور مشین انسان ! تو کیا دین کی طلب بڑھ جائے گی یا کم ہو جائے گی۔؟ اگر بڑھ جائے گی تو رسد کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اگر کم ہو جائے گی تو اس طلب کو بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے۔؟
ڈینیل گولمین ایک امریکی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے چند دہائیاں پہلے اِیموشنل کوشنٹ سے دنیا کو متعارف کرایا۔ آئی کیو کے بعد EQ یعنی جذباتی ذہانت۔ ان کے مطابق انسان کے جذبات اُس کی ذہانت کے عکاس ہیں۔ لہذا انسان کو اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے میں بھرپور توجہ دینی چاہیئے۔ جذبات کی تسکین کے بغیر کوئی انسان کسی بھی کام پر تمرکز (فوکس) نہیں کرسکتا۔ انسان کا ماحول، حالات اور مختلف عوامل اُس کے جذبات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ آپ کا آئی کیو لیول چاہے جتنا بھی بلند ہوو لیکن اگر آپ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو متوازن نہیں رکھ پاتے تو آپ کبھی بھی باصلاحیّت افراد پر مشتمل کوئی اچھی ٹیم تشکیل نہیں دے سکتے اور کسی بڑے ویژن پر کام نہیں کرسکتے۔ عملی زندگی میں اپنے اور دوسروں کے احساسات اور جذبات کو کسی ایک نکتے پر متمرکز کئے بغیر نیز احساسات و جذبات کے اظہار کے طریقوں کو سمجھے بغیر کوئی ٹیم تشکیل نہیں پا سکتی اور پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے کسی ادارے میں آئی کیو لیول کے امتحان میں کتنے نمبر آئے ہیں اور ماضی میں آپ کا کسی بھی شعبے میں اپنا ذاتی تجربہ کتنا اور کیسا رہا ہے۔
مطالعات کے مطابق ای کیو اور ایس کیو میں برتری رکھنے والے لوگ زیادہ آئی کیو والی شخصیات کی نسبت گئی گنا بہتر ٹیم تشکیل دے لیتے ہیں. اب سوال یہ بھی ہے کہ جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے عہد میں انسان کے جذبات و احساسات کو مشینی طریقہ کار سے کچل دیا جائے گا تو دینی تعلیمات و دینی اقدار میں انسان کیلئے کشش کیسے باقی رہے گی.؟ کیا مشینوں کی حکومت میں انسان آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی زد میں آنے کے بعد اپنے دین کو بچا سکے گا؟ اور کیا بچانے کے بجائے اپنانے کا بھی کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔؟ جامعۃ الرضا اسلام آباد میں جاری یہ ورکشاپ اپنے موضوعات کے اعتبار سے ہمیں ایسے ان گنت سوالات پر سوچنے اور غوروخوض کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ میں بھی سوچتا ہوں اور آپ بھی سوچئے، اس لئے کہ سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔