تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ سے اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس اور جہاد اسلامی نے 7 اکتوبر کو طوفان اقصیٰ نامی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس طوفان کے بعد غاصب صیہونی حکومت اور اس کی قابض فوج نے غزہ پر جارحیت اور عوام کی نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا۔ یہ نسل کشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے سات اکتوبر کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی حمایت کے لئے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمہ کے لئے جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی 120 کلو میٹر طویل سرحد پر غاصب صیہونی فوج کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کریں گے اور یہ سلسلہ آٹھ اکتوبر کو شروع کر دیا گیا۔ لبنان اور غاصب صیہونی فوج کے درمیان ہونے والی جنگ کے ایک سال کے عرصہ میں جہاں لبنان پر اسرائیل کی شدید بمباری جاری رہی، وہاں حزب اللہ کی جانب سے بھی غاصب اسرائیلی فوج کو بہت بڑے پیمانہ پر نقصان پہنچایا گیا۔
اس جنگ میں حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت بشمول سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، فواد شکر، ابراھیم عقیل اور اسی طرح حماس کی اعلیٰ قیادت میں اسماعیل ھانیہ اور یحییٰ سنوار سمیت صالح العاروری اور دیگر بھی شہید ہوئے۔ لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں پانچ ہزار سے زائد لبنانی شہری شہید، دسیوں ہزار زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور مہاجرین ہوگئے۔ بہرحال یہ جنگ جاری رہی اور حزب اللہ نے غاصب صیہونی فوج کو اس کے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکے رکھا۔ یہاں تک کہ حزب اللہ کی سب سے اہم کامیابیوں میں نیتن یاہو کی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ، شمال فلسطین میں چالیس کلومیٹر گہرائی میں لاکھوں صیہونی آباد کاروں کا انخلاء، جو تاحال واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی اور متعدد کامیابیاں شامل ہیں۔
ایک طویل مدتی جنگ کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے مجبور ہو کر لبنان کے ساتھ جنگ بندی کا ایک منصوبہ بنایا، جس پر لبنان کی حکومت بھی آمادہ ہوگئی اور عالمی استعماری قوتیں، جو اسرائیل کی پشت پناہ ہیں، سب نے اس معاہدے پر عملدرآمد کے لئے لبنانی حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کیا۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہ جنوبی لبنان کی سرحد پر اقوام متحدہ کی ماضی کی قرارداد کے مطابق عالمی امن فوج تعینات ہوگی اور لبنانی فوج کو سرحدوں کی ذمہ داری جیسی بات بھی کی گئی۔ بہرحال اس معاہدے کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہتا جائوں کہ اسرائیل نے اپنے بچائو کے لئے ایک نیا منصوبہ بنایا تھا اور چاہتا تھا کہ حزب اللہ کو تنہا کر دیا جائے۔ حزب اللہ نے لبنان میں خانہ جنگی کے خطرات سے بچنے کے لئے لبنانی حکومت کی رائے کا احترام کیا اور معاہدے کو تسلیم کیا۔ یہ جنگ بندی معاہدہ 60 روز کے لئے کیا گیا تھا اور یہ 27 نومبر کو انجام پذیر ہوا تھا، جو اب 26 جنوری کو ختم ہونے والا ہے۔
ساٹھ روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے دوران غاصب صیہونی حکومت اور قابض فوج نے متعدد مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے، جبکہ دوسری جانب حزب اللہ نے حکومت سمیت عوام اور معاہدے کے اراکین کو واضح کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزیاں جاری رکھی جاتی ہیں تو پھر حزب اللہ کے پاس اسرائیل کے خلاف دفاعی کارروائیوں کا قانونی جواز موجو دہے۔ حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی دیر برداشت نہیں کرے گی۔ اب جیسے جیسے معاہدے کے خاتمہ کے دن قریب آرہے ہیں تو یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوتی چلی جا رہی ہے۔ حال ہی میں صیہونی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ مزاحمتی تحریک کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں طے شدہ 60 دن کی واپسی کی مدت کے اختتام پر جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو نہیں چھوڑے گا۔
غاصب صیہونی حکومت کے ایک نامعلوم اسرائیلی اہلکار نے یروشلم پوسٹ کو بتایا ہے کہ "جب تک کوئی بڑا سرپرائز نہ ہو، لبنانی فوج 60 دن کی جنگ بندی کے دوران مکمل طور پر تعینات نہیں ہوسکے گی، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو کچھ طویل عرصے تک رہنا پڑے گا۔" یعنی اس شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی فوج جو کہ جنوبی لبنان کی سرحدوں کے قریب موجود ہے، وہ واپس نہیں جانے والی ہے اور شاید ایک طویل مدت تک کے لئے یہاں قیام کرے، جیسا کہ پہلے ہی جنوبی لبنان میں شعبا فارمز کے علاقوں پر صیہونی فوج کا ناجائز تسلط قائم ہے۔ غاصب اسرائیل کے ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی رپورٹس میں لبنان کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بندی کے متعلق اسرائیل کے آئندہ اقدامات کے حوالے سے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب نئے آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے حامی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن حکومت جاتے جاتے ٹرمپ کے لئے مشکلات اور مسائل کا انبار لگا رہی ہے، تاکہ جب ٹرمپ اقتدار سنبھالیں تو وہ کمزور ہو جائیں اور انہی مسائل میں الجھے رہیں۔ شام میں بھی سی آئی اے نے ایسا ہی ایک پراجیکٹ شرو ع کر دیا ہے، جو اب جولانی کی صورت میں ظاہر ہوچکا ہے اور یہ آئندہ آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے لئے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ بہرحال یہ سب تجزیات ہیں اور آنے والا وقت ہی ٹھیک فیصلہ کرے گا۔ لبنان اور غاصب ریاست اسرائیل کے مابین ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ دراصل اس لئے شروع کیا گیا تھا اور امریکہ سمیت مغربی حکومتوں کی تائید حاصل ہوئی تھی، کیونکہ اسرائیل کو میدان جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے اور لبنان میں 4000 سے زائد افراد کی شہادت کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا تھا، لہذا حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔
اس معاہدے کی معیاد 26 جنوری کو ختم ہونے والی ہے، اسرائیل کو مقبوضہ قصبوں سے اپنی فوجیں نکالنے اور لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کے حوالے کرنے کے لیے 60 دن کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ لبنانی حکومت بھی اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ نگران وزیراعظم نجیب میکاتی نے بھی معاہدے کے ضامن اراکین کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر پابند کیا جائے۔ جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیل کی خلاف ورزیوں پر حزب اللہ لبنان نے واضح اور دو ٹوک موقف دہراتے ہوئے بتا دیا ہے کہ وہ صرف ساٹھ دن مکمل ہونے تک انتظار کریں گے اور اگر خلاف ورزیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا تو پھر اسرائیل کی جارحیت اور معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف حزب اللہ کو لبنان اور لبنان کے عوام کے دفاع سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اگر اسرائیل مقررہ تاریخ سے آگے لبنان کی سرحدوں کے اطراف میں رہنے کی کوشش کرے گا تو تمام بین الاقوامی اصول اور معاہدے لبنان اور اس کے عوام کو تمام ضروری ذرائع سے اپنے علاقوں کو مکمل طور پر آزاد کرنے کا حق دیتے ہیں۔
یہی بات حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم بھی کہہ چکے ہیں کہ حزب اللہ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔ جنگ بندی کی آخری تاریخ کے ساتھ ہی حزب اللہ کا صبر بھی ختم ہوسکتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ لبنان اور اسرائیل جنگ بندی کا مستقبل پائیدار نہیں ہے۔ ایک اور جنگ غاصب صیہونی فوج کی مشکلات میں اضافہ کرے گی اور پہلے ہی مورال ڈائون اسرائیلی فوج شدید مشکلات سے دوچار ہے اور اب اگر لبنان کے محاذ پر دوبارہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اسرائیل اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ نقصان اٹھائے گا، کیونکہ دنیا میں مزاحمت کے حوالے سے کسی کے پاس بھی وقت یا شیڈول موجود نہیں ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مزاحمت خاموش رہے گی یا کارروائی کرے گی، کیونکہ حزب اللہ ان سب باتوں کی پابند نہیں ہے۔ مزاحمت کی قیادت فیصلہ کرتی ہے کہ کب اور کیسے مزاحمت کی جائے اور یقیناً حزب اللہ معاہدے کے خاتمہ پر درست فیصلہ کرچکی ہے۔