0
Friday 3 Jan 2025 13:49

شہید ایک منفرد شخصیت

شہید ایک منفرد شخصیت
تحریر: محدثہ زینب

پانچ سال بیت گئے اور آج بھی مزاحمتی فورسز کے سیدالشہداء کا داغ ہمارے سینوں میں تازہ ہے اور کیونکر نہ ہو کہ یہ وہ شخصیت بےمثال ہے کہ جو حدود اور خطوں سے بالاتر ہو کر ہر مسلمان بلکہ ہر انسان کے لیے آغوشِ رحمت وا کیے رکھے ہوئے تھے اور خود کو ہر مسلمان کا محافظ جانتے تھے۔ آج رہ رہ کر ان بچوں کی فریاد سنائی دیتی ہے، جو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر یوں نالہ و بکا بلند کیے ہوئے تھے کہ آج ہم ایک بار پھر یتیم ہوگئے، کیونکہ چچا قاسم، ہم یتیموں کے باپ تھے۔ شہید قاسم سلیمانی، آیت اللہ حائری شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق اسلام کی تلوار ہیں۔ وہ انتھک مجاہد کہ جو میدان رزم کا وہ دلیر سپاہی رہا کہ جس کی نگاہ عالمِ کفر کے دل تھرا کر رکھ دیا کرتی تھی۔ اپنی ہمہ وقت مصروفیت کے باوجود، اس مردِ خدا نے مزاحمت کے شہداء کے یتیموں اور تنہاء خواتین کا ایسے خیال رکھا، جیسے خود ایک گھر کا باپ رکھتا ہے۔

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت سے محض ان کے اپنے بچے یتیم نہ ہوئے بلکہ شہداء کے بچے پھر سے یتیم ہوگئے، کیونکہ ان کا خاندان محض ان کے خونی رشتے نہیں بلکہ تمام دنیوی حدود سے بالاتر ہو کر ہر دکھی یتیم بھی ان کے لیے اولاد کی طرح تھا۔ جنگ ہو یا امن، میدان ہو یا گھر، دن ہو یا رات، کسی بھی صورت میں یہ شہیدِ عزیز ان یتیم بچوں سے غافل نہ رہتے تھے۔ دشمن کی آنکھوں سے نیند چھیننے والا وہ الہیٰ سپوت اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کبھی کسی شہید کی بیٹی کو میدانِ جنگ سے کال کرتے اور اس سے ملنے کا وعدہ کرتے، کبھی کسی شہید کی ماں کو اپنے آبائی شہر کرمان میں جا ملتے۔ کبھی کسی یتیم کے لیے باپ بن کر رشتہ مانگنے پہنچ جاتے تو کبھی کسی شہید کے نواسے کے آپریشن کے وقت نانا بن کر آخر وقت تک ہاسپٹل میں حاضر رہتے۔

آج جب شہید قاسم سلیمانی کہ جن کی تشییع کا دن رہبر معظم کے مطابق یوم اللہ تھا، کے خاندانی روابط کے بارے قلم اٹھانے کو جی چاہا تو یک لخت خیال آیا کہ قاسم سلیمانی کا کنبہ محض کچھ افراد تو نہ تھے، یہ ہستی تو ہزاروں یتیموں اور جنگ زدوں کے والد تھے۔ اس مردِ خدا کا خاندان تو دنیا کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیا یہی وہ مردِ خدا نہ تھا کہ جن کی شہادت ان کے لیے بھی بجلی بن کر گری اور یتیمی کا احساس چھوڑ گئی کہ جنہوں نے 3 جنوری 2020ء کو پہلی بار قاسم سلیمانی کو جانا اور پہچانا۔ سچ کہتے تھے قاسم سلیمانی: "عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تم چاہے گمنام ترین انسان بن جاو، لیکن تمہاری نیت لوگوں کی خدمت ہو تو اللہ تمہیں عظیم عزت و عظمت کے ساتھ نوازے گا۔" اور ہر آنکھ نے 3 جنوری 2020ء کو دیکھا کہ شان و شوکت کس طرح کسی مردِ خدا کے قدم چومتی ہے۔

وہ سپاہ پاسداران ایران کا سپہ سالار کہ میدانِ جنگ کا چپہ چپہ جس کے قبضہِ اختیار میں تھا اور جو اعلان کرے کہ تین مہینے کے اندر اندر داعش کا خاتمہ کیا جائے گا تو دشمن تھرا کر رہ جائے، کیا کوئی یہ یقین کرے گا کہ ایسے کئی ایام گزرے، جب ان کے پاس اپنے گھر کے لیے کچھ چاول خریدنے کے لیے بھی رقم موجود نہ تھی۔ وہ مہربان باپ اور شفیق والد کہ جو دل کی تنہائیوں کو اپنی بیٹی فاطمہ کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس باپ بیٹی کے گہرے تعلقات کی عکاسی کیے ہوئے ہے۔

جو زینب سلیمانی کو مزاحمت کے محاذ پر ساتھ رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور روحِ مقاومت کی امانت انہیں سونپ جاتے ہیں، لیکن عین اسی حال میں جب یہ لختِ جگر شہید کے آفس میں موجود کچھ خشک میوہ اٹھا لیتی ہیں تو ان خشک میووں کا بھی حساب ریکارڈ میں لاتے ہیں کہ یہ بیت المال کی امانت ہے، جس پر میری بیٹی کا حق نہیں اور میں اس کی ادائیگی کروں گا۔ بطور ایک باپ شہید بخوبی جانتے تھے کہ ایک باپ کو کس طرح عمل کے ذریعے اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہے اور ان تک ایمان کا نور پہنچانا ہے کہ جس کی تجلی سے قیامت تک کے لیے یہ دنیا منور رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 1182157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش