تحریر: اسماعیل باقری
ھیئت تحریر الشام نامی مسلح گروہ جو عام طور پر تحریر الشام کے نام سے جانا جاتا ہے، 2016ء میں کئی دیگر مسلح گروہوں کے انضمام سے تشکیل دیا گیا، جن میں جبهۃ النصرہ بھی شامل ہے۔ شام میں القاعدہ کی شاخوں میں شامل النصرہ فرنٹ نے گذشتہ برسوں میں القاعدہ سے دوری اختیار کرنے اور زیادہ سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنا نام اور ڈھانچہ تبدیل کیا ہے۔ طالبان اور تحریر الشام کے درمیان نظریاتی تعلق اس وجہ سے ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان خود کو اس گروپ کے ساتھ ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔ دمشق میں تحریر الشام کے قبضے کے بعد، مزاحمتی محاذ سے قریب بیشتر اسلامی ممالک کا سرکاری موقف یہ تھا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور مسلح افراد کی واضح حمایت نہیں کرتے ہیں۔
لیکن طالبان حکومت خطے کی ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی، جنہوں نے ترکیہ اور عرب ممالک (قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات) کے ساتھ بشار اسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام کے اقتدار میں آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ طالبان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ "مستقل اور خدمات پر مبنی اسلامی حکومت کے قیام" کی امید رکھتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دارالحکومت دمشق اب شامی عوام کے کنٹرول میں ہے اور اس کی قیادت تحریر الشام کے پاس ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ باقی مراحل کو مؤثر طریقے سے سنبھالا جائے گا، تاکہ ایک پرامن، متحد اور مستحکم حکومتی نظام قائم کیا جاسکے۔ افغانستان میں طالبان حکومت نے شام میں شامی ترجمان کی سیاسی اور عسکری کامیابیوں کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ پیش رفت شام میں ایک "اسلامی حکومت" کے قیام کا باعث بنے گی۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے سربراہ امیر خان متقی نے شام میں تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے ذریعے مقرر وزیر خارجہ اسعد الشیبانی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں ان کو جیت پر مبارکباد پیش کی اور شامی عوام اور نئی قیادت کے لئے خیر و استحکام کی خواہش کی۔ امیر خان متقی نے اپنے ملک کی جانب سے نئی شامی حکومت کی جانب سے شامی عوام کے مفاد میں کیے جانے والے اقدامات کی حمایت پر زور دیا۔ متقی نے شام میں امن و استحکام کے لیے "عام معافی" کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اچھی حکمرانی کے اصول عوامی اعتماد اور قومی تعاون کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس دور میں مغربی ایشیاء میں کئی وجوہات کی بناء پر (شام، لبنان، غزہ اور فلسطین وغیرہ) افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور متاثر کرتے بھی ہیں دونوں صورتوں میں۔ نظریاتی اور مذہبی روابط کے علاوہ، مغربی ایشیاء میں ہونے والی تبدیلیوں کے افغانستان پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، اثر و رسوخ کے حوالے سے سب سے اہم عنصر امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں ترکیہ اور قطر کے کثیر الجہتی کھلاڑیوں کا کردار ہے۔ شامات کے علاقے (عراق اور شام) میں سلفی - تکفیری، داعش، القاعدہ، النصرہ اور تحریر الشام جیسے گروپوں کی تشکیل کا مقصد مزاحمت کے بلاک کا مقابلہ کرنا اور صیہونی حکومت کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کی پراکسیز نے داعش، تحریر الشام اور جبھۃ النصرہ جیسے سلفی - تکفیری گروپوں کی تشکیل اور جنگی سازوسامان اور اسلحوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بشار اسد کی حکومت کو گرانے کے لیے ان معروف کھلاڑیوں کی کوششوں کا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ مزاحمت کے بازو کو کاٹ دیں اور تل ابیب پر مسلط بچوں کی قاتل حکومت کو تحفظ فراہم کریں۔ افغانستان اور شام کی کہانی ایک جیسی ہے، دونوں کی حکومتیں اتوار کو گر گئیں، دونوں کو 11 دن میں قبضہ کر لیا گیا اور دونوں ممالک کے رہنماء فرار ہوگئے، البتہ طالبان نے چار دہائیوں کی لڑائی کے بعد سابق سوویت قابضوں اور پھر امریکی فوجیوں کے خلاف جنگ کے بعد، امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کرکے، دوحہ معاہدے پر دستخط کیے اور پھر افغانستان سے امریکیوں کو نکلنا پڑا، لیکن شام میں تحریر الشام کی کہانی الگ ہے۔
یہ امریکہ، صیہونی حکومت اور اس کے علاقائی اتحادی، خاص طور پر ترکیہ اور قطر تھے، جنہوں نے بڑے پیمانے پر نفسیاتی کارروائیوں اور میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں بشار اسد کی حکومت کے بارے میں پہلے سے زیادہ بدگمانیاں پیدا کیں۔ بشار کے خلاف امریکی پابندیوں (سیزر پابندی) اور واشنگٹن کی طرف سے اس کے اثاثوں کی لوٹ مار نیز سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں مسلح افراد کی بڑے پیمانے پر حمایت اور اسلحہ کی فراہمی کی وجہ سے بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ لہذا اگر افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں دوبارہ آنے میں طالبان کا اہم کردار تھا تو شام میں مداخلت کرنے والے غیر ملکیوں کی حمایت خاص طور پر ترکیہ، امریکہ اور صیہونی حکومت جولانی کے شام پر قبضے کا باعث بنی۔
اسی وجہ سے خطے کے ممالک (ترکیہ، عراق، قطر، اردن اور۔۔۔) کے حکام کی محمد جولانی کے ساتھ شام میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور امریکی، برطانوی اور جرمن سفارت کاروں نے بھی شام میں تحریر الشام کے سربراہ سے ملاقات کے لیے صفیں باندھ رکھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی دوبارہ اقتدار میں آمد اور کابل پر ان کے قبضے کے بعد جبھۃ النصرہ سمیت بہت سے اسلام پسند مسلح گروپوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن سیاسی پالیسی اور طرز حکومت کے لحاظ سے طالبان کی حکومت شریعت کے نفاذ پر مبنی ہے، افغانستان کی سرزمین پر برسراقتدار حکومت، حنفی فقہ اور غیروں پر انحصار نہ کرنے اور غزہ اور فلسطین کے مظلوم لوگوں کی حمایت کرتی ہے۔
ابو محمد جولانی کے لیے امریکہ کی جانب سے دس ملین ڈالر کا انعام معاف کیا جا رہا ہے (یا معطل کیا جا رہا ہے) اگر وہ اسرائیل اور اس کے علاقائی اسٹریٹجک مفادات یعنی صیہونی حکومت کی پاسداری کرتے ہیں اور ایسے اقدامات نہیں کرتے، جو واشنگٹن کے مفادات کو خطرے میں ڈالیں۔ آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ غیر ملکی مداخلت اور متعدد مخالف گروپوں کے باوجود، شامی عوام برسوں سے مزاحمت کے بلاک میں رہے ہیں اور یہ امکان بہت کم ہے کہ مسلح سرغنہ (جولانی) شام میں مستحکم حکومت تشکیل دے سکے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی شام پر قبضے کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ شام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔