تحریر: امداد علی گھلو
26 جمادی الثّانی 1446ھ
29 دسمبر 2024ء
دو سال کے قلیل عرصے میں عالم ربانی علامہ غلام حسن نجفی جاڑاؒ، شیخ الحدیث و مفسّرِ قرآن آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفیؒ اور مفسّرِ قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفیؒ جیسے جلیل القدر اکابرین کی رحلت نے علمی و دینی حلقوں پر غم و اندوہ کے بادل چھا دیئے۔ ان کی جدائی ایک ایسا صدمہ ہے، جو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے روح پرور بہاریں خزاں کی زد میں آگئیں۔ یہ حادثہ اہلِ علم کے لیے ایک نہ بھرنے والا خلا چھوڑ گیا ہے۔ دنیا ایک عارضی پڑاؤ ہے، جہاں انسان محض ایک مسافر کی حیثیت سے آتا اور گزرتا ہے۔ یہ ایک منزل ہے، جہاں قافلے رک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ رہے گا، سوائے اللہ کے، جو ازلی و ابدی ہے۔ وہی واحد ہستی ہے، جس کا نام ہمیشہ باقی رہے گا۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا: "کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ" (روئے زمین پر موجود ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور صرف آپ کے صاحب عزت و جلال رب کی ذات باقی رہنے والی ہے۔)
ہر شخصیت اپنے اندر کمال کے مختلف پہلو رکھتی ہے اور ان سے اثر لینے کی جہتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان تینوں جلیل القدر ہستیوں کی زندگیاں گوناگوں خصوصیات اور کمالات کی آئینہ دار تھیں۔ ان کے علمی رسوخ، تحقیقی بصیرت، گہری نظر اور متنوع و وسیع مطالعے نے ہر علمی و دینی حلقے کو متاثر کیا۔ ان کی تحریریں، تبلیغات اور افکار ایک ایسے علمی خزانے کی مانند ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ کا کام دیں گی۔ ان اکابرین کی جدائی نہ صرف علمی و فکری میدان میں محسوس کی جا رہی ہے، بلکہ ان کے روحانی و معنوی اثرات بھی ایک روشن یادگار کی صورت میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی زندگی کے ہر لمحے نے علم، خدمت اور تقویٰ کی عملی تعبیر پیش کی۔ ان کی رحلت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندے اپنے اعمالِ صالحہ، کردارِ عظیم اور علمِ نافع کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو کر بھی اپنے اثرات کے ذریعے قلوب و اذہان میں زندہ رہتے ہیں۔
یہ شخصیات صرف ایک علمی میراث نہیں چھوڑ گئیں بلکہ اپنے کردار سے یہ درس بھی دے گئیں کہ استقامت، خدمتِ خلق اور ایمان کا چراغ کبھی بجھنے نہ دینا چاہیئے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کرنا ممکن تو نہیں؛ لیکن ان کے نقوشِ قدم کو مشعلِ راہ بنا کر ہم ان کی یاد کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ مذکورہ تینوں بزرگوار علم میں فنا، کتابوں کے عاشق اور مطالعے کے رسیا تھے۔ ان کی زندگی کتابوں کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی، مطالعہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، قرطاس و قلم ان کے ہم نشین تھے اور صریرِ خامہ کی دل نواز نغمہ سرائی ان کا محبوب مشغلہ۔ وہ یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے علم و تحقیق میں غرق رہتے۔ یہ تھے علم کے سچے متوالے، مطالعے کے پیاسے اور شیدائی، جن کے شب و روز علم کی روشنی میں بسر ہوتے تھے۔
بزرگ علماء کا مطالعہ کبھی سرسری یا عجلت پسندی کا شکار نہ ہوتا، بلکہ اس میں گہرائی اور تہہ داری کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ وہ جس مضمون کا مطالعہ کرتے، اسے تدبّر و تفکّر کے ساتھ پڑھتے، پوری توجہ سے جذب کرتے اور ہر پہلو سے اس پر غور و خوض کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا مضمون پر عبور گہرا اور مضبوط ہوتا تھا۔ اللہ نے انہیں ذوقِ مطالعہ کے ساتھ عقل کی سلامتی اور فہم کی تیز بینی سے بھی نوازا تھا۔ چنانچہ جب وہ مطالعہ کی کسی پیچیدہ راہ کو عبور کرتے، تو ان کا دامنِ طلب انشراحِ قلب اور اطمینان کی سوغات سے مالامال ہوتا۔ یہی صفات ان کے علمی موقف کو نہ صرف پُختہ بلکہ منفرد بھی بناتی تھیں اور ان کے دلائل میں ایک خاص وقار اور استحکام نظر آتا تھا۔
کامیاب اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی تمام زندگی قرآن و عترت کی تعلیمات سیکھنے اور سکھانے میں بسر ہو جائے۔ ایسے افراد نہ صرف اپنی ذات کے لیے بلکہ معاشرے اور امت کے لیے بھی مشعلِ راہ ہوتے ہیں۔ لائق صد مبارک باد ہیں وہ نفوس، جنہوں نے قرآن مجید اور تعلیماتِ محمد و آلِ محمد علیہم السلام کے پڑھنے اور پڑھانے کو اپنی زندگی کا محبوب مشغلہ بنایا اور اسی حالت میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ حضرت علامہ شیخ محسن علی نجفی (نور اللہ مرقدہ) انہی خوش نصیب افراد میں سے تھے، جن کی ذات بابرکت آج بھی علمی، فکری اور دینی حلقوں میں یاد کی جا رہی ہے۔ آج ان کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے اور ان کی گراں قدر علمی و دینی خدمات کو یاد کرتے ہوئے یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ان کے جانے سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت ایک متوازن، معتدل اور بلند پایہ عالم دین اور مفسّر و محقّق سے محروم ہوگئی ہے۔
مرحوم علامہ نجفی میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں، جو اگلے بزرگ علماء میں ہوتی تھیں۔ عربی اور فارسی زبان کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عالم باعمل تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کو علم و عمل کا حسین امتزاج بنایا۔ ان کے دل میں خدا کی مخلوق کے دکھ درد کا گہرا احساس تھا اور وہ ہر ممکن طریقے سے انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ علامہ محسن علی نجفی مرحوم نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور ان کے ذریعے اسلام کی درست تصویر لوگوں کے سامنے لائے۔ ان کی شخصیت سے متاثر ہر فرد کو آج اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ مرحوم کی رحلت کے بعد ہم نے ان کے مشن کو کتنا آگے بڑھایا ہے؟ ایک سال گزر جانے کے بعد کیا ہم نے ان کے مشن، ان کے علمی اور فلاحی کاموں کو اسی جذبے اور اخلاص کے ساتھ جاری رکھا ہے یا نہیں۔؟
ان کے تعلیمی ادارے، خصوصاً جامعۃ الکوثر، جو ان کی علمی کاوشوں کا شاہکار ہے، کیا آج بھی اسی روشنی کا مرکز ہیں؟ کیا ان کے مدارس کے نظام کو پہلے کی طرح فعال اور متحرک رکھا گیا ہے؟ عصری اور دینی تعلیم کے امتزاج کو برقرار رکھنے کے لیے جو کاوشیں مرحوم نے کیں، کیا وہ تسلسل سے جاری ہیں؟ ان کے فلاحی منصوبے، مساجد کی تعمیر، مستحقین کی امداد اور دیگر رفاہی کاموں کا تسلسل کہاں تک برقرار رکھا جا سکا ہے؟ ان کے زیر انتظام چلنے والے مکانات کی تعمیر اور مستحقین کے لیے فراہم کی گئی سہولیات کیا آج بھی اسی رفتار سے جاری ہیں؟قومی و ملی امور میں مرحوم کا جو کردار تھا، وہ ہماری رہنمائی کا ذریعہ رہا۔ آج ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نجفی مرحوم کے مشن اور ان کے اصولوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے قومی و ملی اور آئینی قیادت کے ساتھ ہمارے تعلقات اور مشاورت میں کتنی پُختگی آئی ہے۔؟ نظامِ مرجعیت سے جو وابستگی مرحوم نے قائم کی، کیا وہ مضبوط تر ہوئی یا کمزور ہوگئی۔؟
یہ تمام سوالات ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم علامہ محسن علی نجفی کی یاد کو محض ایک رسمی تقریب تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان کے مشن کو عملی طور پر آگے بڑھانے کے لیے خود کو وقف کریں۔ ان کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح علم، عمل، اخلاص اور خدمت کے ذریعے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے؛ مگر ان کی رہنمائی، مشن اور خدمات ہمیں ایک راستہ دکھاتی ہیں، جس پر چل کر ہم ان کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔