تحریر: سید منیر حسین گیلانی
انسانی ضد ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا نتیجہ اختلاف، پھر لڑائی اور جنگ ہی ہوتا ہے۔ جنگیں دنیا کو تباہ کرتی، انسانیت کا خون بہاتی ہیں۔ یہ عالم بشریت میں سے مظلوموں کو کمزور اور ظالموں کو طاقتور بھی بناتی ہیں۔ اس حوالے سے روس اور یوکرائن کی جنگ کو ہی دیکھ لیں دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا اس جنگ میں بنی نوع انسان کے ساتھ کیا سے کیا کچھ نہیں ہوا؟ اس میں یورپ کو جانیوالی روس کی گیس پائپ لائن کو یوکرائنی آرمی نے تباہ کر دیا، لیکن اس کے باوجود گیس کی مطلوبہ مقدار جو یورپ کو جاتی تھی وہ تو نہ جا سکی۔ کچھ یورپی ممالک نے روس کے دوسرے ذرائع سے گیس حاصل کر لی ہے، جن میں جرمنی اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ لیکن اس جنگ کی طوالت نے گیس ایکسپورٹ کرنیوالے ممالک کو دوسرے راستے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ روس نے کچھ علاقوں میں پائپ لائن گزار دی ہے، اس کے بعد ترکیہ نے استنبول کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں سے اپنی پائپ لائن کے ذریعے یورپ کو روسی گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان پائپ لائن بچھانے میں کچھ اختلاف پایا جاتا تھا، جس کی وجہ شام میں ہیت تحریر الشام کے اقتدار پر قابض ہونے کے حوالے سے خارجہ پالیسی تھی۔ اس وجہ سے ترکیہ نے یورپ کی سپلائی کا مرکز و محور استنبول کو نہیں بنایا تھا، لیکن مذاکرات کے ذریعے دونوں حکومتوں نے اس کا ایک نیا حل تلاش کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں یورپ کو گیس سپلائی کیلئے استنبول کو ہی مرکز و محور قرار دیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ترکیہ کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اپنے اختلافات کو دور کرتے ہوئے ملکی اقتصادی تجارتی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ان کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح قطر سے گیس پائپ لائن بھی انہیں خطوط پر یورپ کو سپلائی دینے کیلئے ترکیہ کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ ان دونوں ممالک کی سمجھدار حکومتوں نے بھی اپنے اقتصادی اور تجارتی چیلنجوں کو دور کر کے معاہدہ کر لیا ہے اور ہر دو ممالک میں گیس پائپ لائن بچھانے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ ان حالات میں بین الاقوامی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اپنے ملک پاکستان کی فکر لاحق ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے یا آ چکی ہے لیکن اپنے توانائی بحران کو دور کرنے اور عوام کی سہولت کیلئے حکومت کیا کر رہی ہے۔ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ ایران گیس پائپ لائن کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ جبکہ ملک میں گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی گیس دستیاب نہیں، لوڈ مینجمنٹ کے نام پر عوام کو ترسا ترسا کر وقفوں میں گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ اور پھر گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے تو غریب کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ مسئلے کے حل کا احساس بھی موجود نہیں۔ حکومت، سول بیوروکریسی اور افواج پاکستان گیس فراہمی میں جو اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، وہ کیوں ادا نہیں کیا جا رہا۔
مجھے دکھ ہوتا ہے کہ ہم ایک ایک ایشو کو حل کرنے کیلئے اس کے طریقہ کار پر اس ایک مسئلے کو بنیاد بنا کر باقی پورے ملک کی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنے پڑوسی ممالک سے کیوں جرات مندانہ اقدام نہیں کرتے کہ ترجیحی بنیادوں پر اہم مسائل حل ہو سکیں۔ بنیادی شہری ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ باہمی بین الاقوامی اختلافات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی ہمسایہ ممالک سے درآمدات اور برآمدات پر توجہ دی جائے، تاکہ ان کی مشکلات کے حل کیلئے اقدامات کئے جا سکیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت 25 کروڑ عوام کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے جو بھی اقدامات اٹھائے ان میں عوام کو ساتھ لیکر چلے اور انہیں آگاہ کرے۔ علاوہ ازیں، امریکہ میں نئی تشکیل پانیوالی ممکنہ حکومت کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی گزارش کرتا ہوں جیسا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران دنیا میں جنگ بندی کا عندیہ دیا تھا اور جو بائیڈن حکومت کیخلاف مہم چلائی تھی، اس وعدے کے اثرات اگلے ماہ 20 جنوری 2025ء کو حلف اٹھانے کے بعد ظاہر ہونے چاہیئں۔ جو بائیڈن حکومت کے سیاہ کارنامے روس یوکرائن جنگ، فلسطینیوں پر ظلم و بربریت جوبائیڈن حکومت کے دامن پر بہت بڑا سیاہ داغ ہے۔ اس لئے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گزارش ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ جس سے دنیا میں دوبارہ ایک بڑی جنگ کی شکل میں تباہی نمودار ہو۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزد کابینہ کے کچھ ارکان نے ایران کے تیل کی سپلائی پر پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دنیا کے اندر تقریبا ً30 فیصد سے زائل تیل کی ترسیلات’ آبنائے ہرمز‘ سے گزرتی ہیں۔ امریکہ ایران کے اس بحری بیڑے پر پابندی لگانا چاہتا ہے جو مختلف ممالک کو تیل سپلائی کر رہا ہے۔ اس پر پابندی لگانے سے امریکہ انسانیت کو ایک بڑی جنگ کی طرف لے کر دھکیلنا چاہتا ہے۔ ان بحری بیڑوں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ نئے نام سے بھی رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں لیکن امریکہ اس سے ایک قدم آگے ان جہازوں کی چیسز نمبر پر بھی پابندی لگا کر ایران کو مشکل میں ڈالنا چاہتا ہے لیکن میں نے امریکی حکمرانوں سے پہلے بھی عرض کیا اور اب بھی گزارش کر رہا ہوں کہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے فساد کی نہیں۔ بلاشبہ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بے خوف و خطر ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جس سے دنیا میں انار کی اور جنگ و جدل کی بجائے امن قائم ہو۔
یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عرصہ گزر چکا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔ 7 اکتوبر 2023ء کو ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے فلسطینیوں نے اپنی آزادی کی جو جنگ شروع کی تھی، اسرائیل باوجود کوششوں کے اسے ختم نہیں کر سکا۔ ایران اور اس کی اتحادی مزاحمتی تحریکیں، فلسطینیوں کی بھرپور طریقے سے مدد کر رہی تھیں اور اب بھی کر رہی ہیں لیکن جب سے "ہیت تحریر الشام" نامی تنظیم نے شام کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا ہے۔ تو وہ سپلائی لائن جو ایران سے براستہ شام پہنچ رہی تھی، متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کیلئے موقع فراہم کرنے اور دمشق کے قریب تک پہنچنے میں مددگار نئی قابض حکومت ہے۔ جس نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شام میں آنیوالی نئی حکومت اسرائیل کو مضبوط بنا رہی ہے، جبکہ فلسطینیوں سے ہمدردی اور ان مظلوموں کی امداد بارے ان کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا۔ اس سے صرف فلسطینی کاز ہی نہیں پورے عالم اسلام کو نقصان پہنچا ہے۔ فلسطینی بے یار و مددگار ہو گئے ہیں۔ انہیں جو کچھ نہ کچھ ایران مدد کر رہا تھا، اس پر انہوں نے قدغن لگوا دی ہے۔ جس سے ایران سے زیادہ مشکلات فلسطینوں کو سامنا ہے۔ (مضمون نگار پاکستان کے سابق وفاقی وزیر تعلیم اور اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین ہیں)