0
Sunday 29 Dec 2024 22:54

کراچی میں انٹر سال اول کے خراب نتائج، کالج ایجوکیشن کے تدریسی نظام پر سوالات اٹھ گئے

کراچی میں انٹر سال اول کے خراب نتائج، کالج ایجوکیشن کے تدریسی نظام پر سوالات اٹھ گئے
اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں انٹرسال اول کے نتائج کی شرح میں ایک بار پھر حیرت انگیز کمی نے کالج ایجوکیشن کے پورے نظام پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی کے شعبہ انسپیکشن کی کارکردگی کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ انٹر بورڈ کراچی کے شعبہ انسپیکشن آف کالجز/انسٹیٹیوشنز کی بنیادی ذمہ داری سرکاری کالجوں و نجی کالجوں کو الحاق جاری کرنا، جبکہ الحاق شدہ سرکاری و نجی کالجوں کا انسپیکشن ہے، تاہم بورڈ کا یہ شعبہ گزشتہ کئی چیئرمینوں کے دور سے غیر فعال ہے اور اس شعبے اور شعبے کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کراچی کے سرکاری کالجوں کا دورہ کرتی ہے، وہاں مطلوبہ تدریسی سہولیات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی رپورٹ تیار کرکے متعلقہ حکام کے حوالے کی جاتی ہے۔ مزید براں یہ کہ جب سرکاری کالجوں کے پرنسپلز کی جانب سے طلبہ کے امتحانی فارمز کے ساتھ ان کی فرضی حاضری (attendance) بورڈ کو بھجوائی جاتی ہے، تو بورڈ کی جانب سے اسی فرضی حاضری کی بنیاد پر انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو ایڈمٹ کارڈ جاری کر دیئے جاتے ہیں۔

امتحانات میں شریک 80 فیصد طلبہ ایسے ہوتے ہیں، جنہوں نے سارا سال یا پورے سیشن سوائے فارم جمع کرانے کے کالج کی شکل تک نہیں دیکھی ہوتی، طلبہ مضمون سے متعلق اپنے اساتذہ کو پہچانتے ہیں اور نہ کالج اساتذہ انہیں شناخت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ کالجوں میں کلاس نہ لینے کی روایت کراچی کے سرکاری کالجوں میں برسوں سے رائج ہے، اس کے برعکس طلبہ دوپہر سے رات تک مختلف علاقوں میں چلنے والے کوچنگ/ٹیوشن سینٹر کو آباد رکھتے ہیں، سرکاری کالجوں کو صرف داخلے، انرولمنٹ اور امتحانی فارم جمع کرانے اور بورڈ بھجوانے کیلئے محض ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کالجوں میں اس وقت بھی عملی طور پر نہ تو طلبہ کی حاضری کا کوئی نظام رائج ہے اور نہ ہی محکمہ کالج ایجوکیشن اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام کرتا نظر آ رہا ہے۔

دوسری جانب سرکاری کالجوں میں اب بھی اساتذہ کے ساتھ ساتھ سہولیات کی بھی شدید کمی ہے، حال ہی میں نئے تعینات ہونے والے کمیشن پاس اساتذہ کو تقرر نامے جاری کیے جانے سے قبل تک صرف کراچی کے سرکاری کالجوں میں 2300 کے قریب اساتذہ کی کمی بتائی جا رہی تھی، جس میں ابھی بھی کوئی بڑا فرق رونما نہیں ہوا ہے، جس کے سبب کراچی کے بیشتر سرکاری کالجوں میں تاحال مختلف مضامین کے اساتذہ موجود نہیں یا ان کی کمی ہے۔ ادھر سرکاری کالجوں میں کمپیوٹر لیبس نہیں ہیں، کتابوں کی خریداری کیلئے کالجوں کو صرف ایک وفاقی ادارے سے کتابیں لینے کا پابند کیا گیا ہے، جہاں اکثر کالج پرنسپلز مطلوبہ کتابیں موجود نہ ہونے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، دوسری جانب کراچی میں محدود پیمانے پر قائم نجی کالج چونکہ privately operate ہوتے ہیں، اس لیے وہاں پڑھانے کیلئے اساتذہ موجود ہوتے ہیں اور طلبہ کی حاضری کا نظام قدرے سخت ہے، جبکہ انٹر میں نجی کالجوں کی کارکردگی بہتر اور نتائج کا تناسب زیادہ ہے۔

کراچی کے درجنوں سرکاری کالج ایسے ہیں، جن کے طلبہ کے نتائج سالہا سال سے 20 فیصد، 10 فیصد اور کچھ کے اس سے بھی کم ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال حال ہی میں جاری نتائج میں انٹرمیڈیٹ سال اول  سائنس پری میڈیکل گروپ کے امتحانات میں 30 ہزار 528 امیدوار امتحانات میں شریک ہوئے، جس میں سے 10 ہزار 914 امیدوار تمام چھ پرچوں میں کامیاب ہوئے، 20 ہزار کے قریب طلبہ فیل ہوئے۔ سائنس پری انجینئرنگ گروپ کے امتحانات میں 22 ہزار 973 امیدوار امتحانات میں شریک اور 6 ہزار 674  امیدواروں تمام چھ پرچوں میں کامیاب ہوئے، جبکہ 17 ہزار کے قریب فیل ہوئے، سائنس جنرل گروپ کے امتحانات میں 17 ہزار 375 امیدوار امتحانات میں شریک اور 6 ہزار 282 امیدواروں نے تمام چھ پرچوں میں کامیاب ہوئے اور 11 ہزار کے قریب فیل ہوئے۔

یاد رہے کہ اس طرح کی صورتحال گزشتہ سیشن کے امتحانات میں بھی پیش آئی تھی، جب اس وقت کے نگراں وزیراعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کی جانب سے ایک سہ رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کی سفارش پر طلبہ کو 10 سے 15 فیصد تک مارکس دیکر پاس بھی کیا گیا، تاہم حال ہی میں یہ صورتحال ایک بار پھر پیدا ہوگئی ہے۔ انٹر سال اول کے گزشتہ خراب نتائج پر بنائی گئی سابقہ کمیٹی کے کنوینر اور این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی نے کہا کہ "کمیٹی کی فائنڈنگ کی بنیاد پر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انٹر بورڈ کی جانب سے جن اساتذہ نے امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ کی تھی، اس میں کہیں بھی نقائص نہیں تھے نہ کہیں طلبہ کو ناجائز "فیور" دی گئی تھی اور نہ ہی کسی کاپی میں جان بوجھ کر طالب علم کو کم مارکس دے کر فیل کیا گیا تھا، بلکہ کاپیوں کی اسسمنٹ معیاری و شفاف تھی"۔ ادھر ایک کالج پرنسپل کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ طلبہ کالج نہیں آتے اس لیے اساتذہ پڑھاتے بھی نہیں، لیکن کاپیوں کی اسسمنٹ کے وقت اساتذہ اصول و ضوابط پر سختی کرتے نظر آتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1181265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش