اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" نے استقامتی محاذ کے فاتح کمانڈروں شہیدان جنرل "
قاسم سلیمانی" اور "
ابو مہدی المہندس" کی 5ویں برسی کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ شہید قاسم سلیمانی جہادی و سیاسی سطح پر ایک اسٹریٹجک کمانڈر تھے۔ انہوں نے خطے میں امریکی و صیہونی منصوبوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے امریکہ اور اس کے منصوبوں کو اس طرح خوار کیا کہ انہیں ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ اس شہید والا مقام نے ہمیں بتایا کہ صیہونی رژیم خطے پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر زندہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ایک ایسا نمونہ اور پرچم ہیں جس کے اثرات اسرائیل کی نابودی تک باقی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ابو مہدی المہندس ولایت کی فرمانبرداری کا مظہر تھے۔ انہوں نے عراق میں الحشد الشعبی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ 2024ء میں صیہونی دشمن آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر مقاومت نے ثابت قدمی دکھاتے ہوئے اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ صیہونی رژیم کے وسیع و مجرمانہ حملوں اور جنگ بندی میں رکاوٹوں کے باوجود ہم نے سیز فائر کے معاہدے کو قبول کیا۔ تاہم حالیہ جنگ کے بعد اسرائیل پہلے کی طرح لبنان کو اپنی جارحیت کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ شام میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات لبنان پر بھی پڑیں۔ شاید مستقبل میں شامی عوام صیہونی رژیم سے مقابلے میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ استقامتی محاذ کمزور ہو گیا ہے لیکن وہ اس بات کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں کہ شہیدِ مقاومت "سید حسن نصر الله" کی شہادت کے صرف 10 دن بعد ہی حزب الله پوری طاقت سے میدان میں واپس لوٹی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صیہونی رژیم کی سخت ترین جارحیت کا مقابلہ کیا اور اس کے مقابلے میں ثابت قدمی دکھائی۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ مقاومت نے نہ صرف اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنایا بلکہ صیہونی رژیم کے اہداف کے راستے میں بھی سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ مقاومت ہر صورت میں جاری رہے گی اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اسرائیل اپنا قبضہ جاری رکھ سکے۔ استقامتی کمان اس بات کا تعین کرے گی کہ کب اور کیسے دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ مزاحمتی کارروائیوں کا تعین کسی ٹائم لائن سے نہیں کیا جا سکتا۔ نہ معاہدے سے اور نہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ہمارا صبر مناسب وقت پر ہمارے فیصلوں سے جڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ اسرائیل پر زور دیتا ہے کہ وہ جنوب میں دریائے لیطانیہ سے پیچھے ہٹے۔ لبنان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدوں پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔ اس وقت مزاحمت بہت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور آنے والی نسلیں اس طاقت کا مشاہدہ کریں گی۔