تحریر: سید رضا میر طاہر
امریکی محکمہ خزانہ نے منگل کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول کے ادارہ نے (OFAC) ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور سپاہ کے ایک ذیلی ادارہ اور ماسکو میں واقع روسی انٹیلی جنس سروس سے منسلک تنظیم (GRU) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامی انقلابی گارڈ کور اور جی آر یو سے وابستہ افراد 2024ء کے انتخابات کے دوران امریکہ میں سماجی-سیاسی تناؤ کو ہوا دینے اور امریکی عوام کو متاثر کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ پابندیوں کا اطلاق اسلامی انقلابی گارڈ کور، جی آر یو اور ان کی بہت سی منسلک ذیلی تنظیموں پر کیا گیا ہے۔ امریکہ کے قائم مقام سیکرٹری برائے خزانہ برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس"بریڈلی اسمتھ"، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور روس کی حکومتوں نے ہمارے انتخابی طریقہ کار اور اداروں کو نشانہ بنایا ہے اور امریکی عوام کو ٹارگٹڈ ڈس انفارمیشن مہم کے ذریعے تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ "بریڈلی اسمتھ"، کا کہنا تھا جو دشمن ہماری جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں، امریکہ اس کے خلاف چوکنا رہے گا۔
2016ء کے صدارتی انتخابات اور 2024ء کے صدارتی انتخابات دونوں کے دوران، بیرونی ممالک، خاص طور پر ایران اور روس کی مداخلت کے بارے میں امریکہ کے دعوے کو امریکی حکومت کے اہلکاروں نے کئی بار دہرایا ہے۔ تاہم ایران نے ہمیشہ ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔ 18 ستمبر 2024ء کو اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے ہیکنگ کے ذریعے امریکی انتخابات میں ایران کی مداخلت کے بارے میں ایف بی آئی کے بیان کے بارے میں امریکی میڈیا کے جواب میں کہا تھا کہ اس طرح کے دعوے بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے اور یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔" اس نمائندے نے مزید کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے داخلی اور انتخابی مقابلوں اور تنازعات میں شامل نہیں ہے، مزید یہ کہ اس طرح کے بے بنیاد دعووں کا جاری رہنا امریکہ کی مزید بدنامی کا باعث بنے گا۔
5 ستمبر 2024ء کو ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے امریکی اٹارنی جنرل کے اس دعوے کے جواب میں کہا تھا کہ بار بار کیے جانے والے یہ دعوے بے بنیاد ہیں کہ ایران نے امریکی انتخابات کے عمل اور نتائج کو متاثر کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکی حکومت کے اہلکار اپنے ملک کی اندرونی تقسیم اور مسائل کو، جن کی سیاسی و سماجی جڑیں ہیں نظر انداز کرکے اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر دوسروں پر الزامات لگا کر ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اپنے پراجیکٹیو اپروچ کے مطابق، امریکہ اپنے حریف یا مخالف ممالک پر اپنے ملک کے انتخابات میں مداخلت کا الزام لگانے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ خود واشنگٹن دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کی بہت طویل تاریخ رکھتا ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کے انتخابات میں براہ راست اور بالواسطہ مداخلت کرتا ہے اور اس کے لئے ہر قسم کی تخریبی کارروائیاں انجام دینے سے دریغ نہیں کرتا۔
اس حوالے سے رنگین انقلابات کا آغاز، اپوزیشن لیڈروں کا تختہ الٹنے کے لیے بغاوتوں کی تیاری اور انجام دینا اور اپنے کٹھ پتلی ایجنٹوں کو اقتدار میں لانا شامل ہے۔ "جو بائیڈن" کی انتظامیہ نئی پابندیاں لگا کر واشنگٹن کے حریف ممالک یعنی روس اور ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیاسی امور کے روسی ماہر "پاول شاریکوف" کہتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی خرابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ "روسی مسئلہ" امریکہ کی اندرونی سیاست کی ساکھ کا مسئلہ بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ روس نے بارہا اپنے انتخابات میں امریکہ کی واضح مداخلت کا مشاہدہ کیا ہے، اسی طرح واشنگٹن نے روسی حکومت کے مخالفین کو روسی پارلیمانی یا صدارتی انتخابات کے نتائج کے ردعمل میں احتجاج اور ریلیاں تک نکالنے کی ترغیب دی ہے۔ گذشتہ چند روسی انتخابات میں واشنگٹن براہ راست ماسکو حکومت اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف پروپیگنڈے اور میڈیا کی جنگ میں اتر گیا تھا اور روس میں مغرب کے اقدامات رنگین انقلاب برپا کرنے کے فریم ورک میں انجام پائے ہیں۔
ایران کے حوالے سے امریکہ کی کارکردگی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ لندن کے ساتھ مل کر واشنگٹن نے 1953ء میں اس وقت کے وزیراعظم مصدق کی قومی حکومت کے خلاف بغاوت کے عمل میں براہ راست کردار ادا کیا تھا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، امریکہ نے پروپیگنڈے اور میڈیا کی جنگ کے دائرے میں، بارہا مختلف انتخابات کے نتائج پر سوالیہ نشان لگائے۔ امریکہ نے خاص طور پر 2009ء کے صدارتی انتخابات میں ایرانی عوام کو انتخابات میں حصہ نہ لینے کی ترغیب دی، بلکہ ایرانی عوام کو سول نافرمانی کرنے اور نتائج کے خلاف احتجاج کرنے کی کھل کر ترغیب دی۔ یہ تمام معاملات امریکہ کے پروجیکٹو اپروچ کو ظاہر کرتے ہیں، یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ مداخلت کی ہے، لیکن اس نے ان معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے ہمیشہ اپنے حریف اور مخالف ممالک پر امریکہ کی اندرونی سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا۔