0
Sunday 7 Jul 2024 18:03

ایرانی نظام کی طاقت اور امریکی صدارتی نظام انتخاب

ایرانی نظام کی طاقت اور امریکی صدارتی نظام انتخاب
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

خبر آتی ہے کہ ایک حادثے میں ایران کے مقبول صدر جناب آیۃ اللہ سید ابرہیم رئیسی کی شہادت ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں اظہار افسوس کیا گیا۔ دنیا بھر سے وفود اظہار تعزیت کے لیے تہران پہنچنے لگتے ہیں۔ اس سے دنیا کے ساتھ ایران کے اچھے تعلقات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا صرف مغرب کے چند ممالک کا نام نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی مرحوم صدر کو خراج تحسین پیش کیا۔ دوست پریشان اور دشمن خوش تھے کہ شائد اب ایرانی نظام مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ دشمنوں کی خوشی اور دوستوں کی پریشانی اس وقت جاتی رہی، جب  آئین کے مطابق عارضی سیٹ تشکیل دے کر الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔ پوری قوم الیکشن کی طرف چلی گئی۔ ہر ملک کی طرح ایران میں کئی طرح کے افکار رکھنے والے گروپس ہیں۔ یہ سب انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ  کھڑے ہیں اور ایران کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے کے لیے اپنی اپنی حکمت عملی رکھتے ہیں۔

یہ آج سے نہیں ہے، ابتدائے انقلاب سے مختلف چیلنجز کے بارے میں دو رائے رہی ہیں۔ یہی اختلاف رائے کسی نظام کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ بڑے رہنماء اور نظام اختلاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں ہاں میں ہاں ملانے والے زیادہ تر چاپلوس ہوتے ہیں۔ یہ وقتی فائدہ تو دے سکتے ہیں مگر اصل میں نظام کے لیے نقصان دے ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران کے انتخابات کے ذمہ دار ادارے نے اٹھائیس جون کو صدارتی انتخابات کا اعلان کیا۔ ان انتخابات میں کوئی امیدوار بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔دوسرے مرحلے میں الیکشن کا اعلان پانچ جولائی کو کیا گیا۔ یہاں ون ٹو ون مقابلہ تھا۔ ایک طرف مسعود پزشکیان تھے اور دوسری طرف سعید جلیلی تھے۔بھرپور کمپین ہوئی اور لائیو مناظرے ہوئے۔

مسعود پزشکیان نے جوہری مذاکرات کو بحال کرنے اور ظالمانہ امریکی پابندیوں سے جان چھڑانے کی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سماجی انصاف اور طبی نظام میں بہتری کا وعدہ کیا۔ انہوں نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں بھی تعلیمی معیار کو بلند کرنے کا وعدہ کیا۔ دوسرے مرحلے کے نتائج کے مطابق تین کروڑ افراد نے الیکشن کے دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے، جن میں سے ایک کروڑ 63 لاکھ سے زیادہ افراد نے مسعود پزشکیان کو ووٹ دیا جبکہ سعید جلیلی نے ایک کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔یوں الیکشن کے دوسرے مرحلے کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ پچاس فیصد رہا۔ یوں جناب مسعود پزشکیان ایران کے صدر منتخب ہو گئے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مغرب ان کی مذاکرات کی خواہش سے فائدہ اٹھاتا ہے یا جناب پزشکیان سابق صدر حسن روحانی صاحب کی طرح ان مذاکرات سے مایوس ہی لوٹتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کبھی بھی کوئی ریلیف نہیں دے گا۔ وہ پورے نظام کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں اور اپنی تہذیب کے لیے ایک بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ مغربیت زدہ لوگ تو انہیں پسند ہی نہیں کرتے، ان  کی رائے ملاحظہ کر لیں، وہ ابھی سے جناب مسعود پزشکیان سے مایوس ہیں۔ چیٹم ہاؤس نامی تھنک ٹینک کی صنم وکیل کہتی ہیں کہ پزشکیان صرف نام کے اصلاح پسند ہیں۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے حامی ہیں اور رہبر اعلیٰ کے وفادار بھی۔ کسی کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو لہجے کی تبدیلی کے علاوہ کچھ بدلے گا۔

ایران کا اسلامی نظام نئی قیادت کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ایک بڑے حادثے کو  اپنی حکمت عملی سے طاقت میں تبدیل کر لیا۔ جناب ابراہیم رئیسی جب دفن ہوئے تو ان کے خلاف پروپیگنڈا بھی دفن ہوگیا اور وہ ایک ہیرو کی حیثیت سے ایرانی قوم کے دلوں میں یاد رکھے جائیں گے۔ اس کے مقابل امریکہ میں بھی انتخابات کی کمپین جاری ہیں اور یہ انتخابات ایک بڑے معرکے کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ امریکی عوام نے موجودہ صدر کی ذہنی اور جسمانی صحت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔ بار بار ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ الیکشن مہم سے دستبردار ہو جائیں، تاکہ کسی ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند انسان کو صدر کا امیدوار بنایا جا سکے۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں بائیڈن نے انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر مجبور کیے جانے سے متعلق سوالات کو بار بار مسترد کیا اور کہا کہ اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ تو ہی میں دوڑ سے باہر ہوں گا اور خدا یہ کہنے نیچے نہیں آیا۔ امریکی صدر کے مالی سپورٹر بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ انہیں الیکشن نہیں لڑنا چاہیئے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ان کی اپنی جماعت کے جلسوں میں عام سپورٹر بھی یہی مطالبہ کر رہا ہے۔ ایک پوسٹر پر کچھ یوں لکھا تھا کہ آپ شمع کسی اور کو دے دیں۔ پنڈال کے باہر کھڑے ایک اور ووٹر نے پلے کارڈ پر لکھا تھا، اپنی میراث بچاؤ، میدان چھوڑ دو۔ایسے تبصرے ہو رہے ہیں کہ 81 سالہ ضعیف جو بایئڈن، جو صدارتی مباحثے کے دوران اکثر سوالات کے جواب میں کچھ بول نہیں پائے اور جب بولے تو ان کی آواز بہت نحیف تھی، کیا انتخابی مہم جاری رکھ پائیں گے۔؟

کانگریس کے دو ڈیموکریٹس نے بھی پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں سے ایریزونا کی نمائندگی کرنے والے راؤل گریجالوا نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ڈیموکریٹس کہیں اور دیکھیں۔ ابھی تک عام امریکی بے یقینی کا شکار ہے کہ آیا بائیڈن الیکشن لڑیں گے یا دباو کا شکار ہو کر دستبردار ہو جائیں گے؟ اور ان کی جگہ ان کی نائب صدر لے لیں گی۔ امریکی صدر کا بیان تو آپ نے پڑھ لیا کہ خدا نیچے آئے گا نہیں اور اس کے بغیر وہ الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اگرچہ امریکی نظام میں اب بھی گنجائش ہے کہ انہیں الیکشن سے روکا جا سکتا ہے، مگر نظام تو وہ ہوتا ہے، جو اتنا بڑا بلنڈر ہونے سے پہلے متحرک ہوتا ہے۔ آج ایرانی نظام انتخاب پر تنقید کرنے والوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ اس میں نظام شفافیت کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت کا پہلے ہی فیصلہ کرتا ہے۔ امیدواروں کا اعلان ہو جانے کے بعد پوری قوم اس میں نہیں الجھتی بلکہ صدر کی پالیسیوں پر بحث کرکے اپنے لیے بہتر صدر کا انتخاب کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1146370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش