0
Thursday 12 Dec 2024 12:46

جو فوج میں ہی نہیں وہ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ آئینی بینچ

جو فوج میں ہی نہیں وہ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ آئینی بینچ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس میں استفسار کیا ہے کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس میں وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔ 
 
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں، اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل8 کا سیکشن 1 غیر مؤثر نہیں کر دیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔ 
 
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا مگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں، کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا جی ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ 
 
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اس کو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟ آرمڈ فورسز سے متعلق قوانین سول کی حد تک دیکھیں۔ خواجہ حارث نے کہا ڈسپلن کے بغیر آرمی کام ہی نہیں کر سکتی۔
 
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ میں نے تاریخ پڑھی ہے، یہ تصور حضرت عمر رضی اللہ کے دور میں آیا تھا کہ آرمڈ فورسز سویلینز سے علیحدہ ہوں گی، آرمڈ فورسز کے لیے قوانین بھی علیحدہ ہوں گے، جو قوانین آرمڈ فورسز کی حد تک نہیں ہیں وہ ڈسچارج آف ڈیوٹیز نہیں ہوں گے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے کیس کی مزید کارروائی کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 1177912
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش