تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ہر مشکل انسان کے لیے مسائل کے ساتھ ساتھ مواقع کی حامل بھی ہوتی ہے۔ شام پچھلی کئی دہائیوں سے مزاحمت کا مرکز و محور تھا۔ یہ اسرائیل کے ساتھ بارڈر اور حزب اللہ کے لیے سپلائی لائن کی وجہ سے اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ جب مزاحمت پوری طاقت سے ظالموں سے ٹکرا رہی تھی، ایسے وقت میں ایک خطرناک چال چلی گئی، مقصد تو یہی تھا کہ مزاحمت کو گھیر کر شام میں الجھایا جائے اور جب مزاحمت انتہائی کمزور ہو جائے تو اسرائیل دوبارہ لبنان پر حملہ کرکے بچے کچھے عناصر کو طاقت سے زیر کر لے۔ اب مزاحمتی محور کے پاس جنگ میں کودنے اور نہ کودنے کا فیصلہ کرنے کا موقع تھا۔ امریکہ، اسرائیل اور اس کے سہولت کار بالکل امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب ایرانیوں اور ان مزاحمتی گروہوں کے جہاز دمشق اترنے لگیں گے اور ہم دسمبر کی سرد راتوں میں سکون کی نیند سوئیں گے۔ صبح جاگ کر دو طرفہ اعداد دیکھ لیں گے کہ ہمارے کتنے دشمن باہمی لڑائی میں مارے گئے ہیں۔
لگ یہ رہا ہے کہ بڑی باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ پورے شام میں مختلف عناصر سے لمبی مدت لڑنا کتنا فائدہ مند ہے اور ممکن بھی ہے۔؟بشار نے مشکل حالات میں مزاحمت کے لیے راہداری دیئے رکھی، اگرچہ جنگ کے دوران مکمل خاموش ہوگیا اور آخر میں کچھ رپورٹس کے مطابق مالی مسائل اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر دوبارہ اماراتیوں اور یورپیوں کے طرف دیکھنے لگا۔ کسی کی حمایت کے لیے اس وقت لڑا جا سکتا ہے، جب زمینی حقیقت بھی اس کے ساتھ ہو۔انیس بیس کے فرق کو ختم کیا جا سکتا ہے، مگر جب بات نوے دس کی ہو تو کام مشکل ہو جاتا ہے۔ اسد بہرحال زمین پر حمایت کھو چکا تھا۔ وجوہات جو بھی تھیں، عوام اس کے خلاف ہوچکی تھی۔ اس میں ظالمانہ پابندیوں اور مسلسل رہنے والی جنگ نے اہم کردار ادا کیا۔
ایران اور حزب اللہ کا شام میں الجھنا دشمن کے لیے فائدے اور مزاحمت کے لیے نقصان ہی نقصان کا سودا تھا۔ بشار کی فوجیں لڑنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ایسے میں بشار کو کئی پیشکشیں کی گئیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ باہمی طور پر طے کرکے امور کو تحریر الشام کے حوالے کر دیا گیا۔ اس میں کئی چیزیں بہت اہم ہیں۔ مقامات مقدسہ کے تحفظ کی ضمانت لی گئی، دو ہزار گیارہ میں داعشی ایسا کرنے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں تھے۔ وہاں کی شیعہ، مسیحی، دروز اور علوی کمیونٹی کے تحفظ کے حوالے سے امور طے کیے گئے۔ بشار الاسد کو بھی ایک محفوظ راستہ دے دیا گیا۔ لگ یہ رہا ہے کہ بشار بھی تھک چکا تھا اور چاہتا تھا کہ امور کو ان کے سپرد کر دے۔ یہ لوگ ملک سنبھال کر دیکھیں، اسرائیل کے پڑوس میں حکومت کرنے کا انہیں بھی پتہ چلے۔
اب شام کے حالات پر غور کریں تو ایک بڑا حصہ کردوں کے پاس ہے، ایک اہم حصے پر روس کا قبضہ ہے۔ اسی طرح تیل پیدا کرنے والے علاقے پر امریکی فوج بیٹھی ہے۔ اب اگر یہ قابض گروہ شیعہ، دروز اور دیگر گروہوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتا ہے تو اپنے لیے مخالفین کی بڑی فوج تیار کرنے والی بات ہوگی۔ اب ایک نئی صورتحال درپیش ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے اتوار کے روز سے لے کر اب تک شام کے مختلف علاقوں میں تقریباً 250 فضائی حملے کیے ہیں، جن میں ہوائی اڈے، گودام، طیاروں کے بیڑے، ریڈار، فوجی مواصلاتی اسٹیشن، اسلحہ اور گولہ بارود کے گودام، سائنسی تحقیقی مراکز اور فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، شمال مغربی شہر لاذقیہ کی بندرگاہ میں ایک جنگی جہاز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اطلاعات آرہی ہیں کہ اسرائیلی فوج مسلسل دمشق کی طرف بڑھ رہی ہے اور دمشق سے بیس کلومیٹر دور رہ گئی ہے۔
امریکی، اسرائیلی اور ترک پلان کے مطابق اسلام پسندوں سے فقط جنگ کرانی تھی اور انہیں اتنی مار پڑ جانی چاہیئے تھی کہ حکومت آرام سے سیکولر طبقے کے حوالے کر دی جاتی۔ ایران اور حزب اللہ نے اس چال کو بھانپا اور بڑی حکمت عملی سے خود کو اس میں الجھانے کی بجائے ان اسلام پسند گروہوں کو کہ جس میں انتہاء پسند اور القاعدہ سے وابستہ گروہ بھی شامل ہیں، ان سے ترکی اور قطر کے ذریعے رابطہ کیا گیا۔ ان کے ساتھ کچھ بنیادی معاملات طے کیے گئے، جنہیں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے ان گروہوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں دمشق تک پہنچنے میں مہینوں لگتے اور دونوں طرف کے لاکھوں لوگ مر جاتے ہیں۔ پھر مغرب کی سرپرستی میں کوئی ڈیل ہونی تھی۔ اب مغرب اور اسرائیل کے پلان کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ ماضی کی تلخیاں اور کچھ فرقہ وارانہ ذہنیت موجود ہے، مگر شام کا ایک بڑا حصہ اب اسلام پسندوں کے ہاتھ آچکا ہے۔ یہی بات مزاحمتی محور کے لیے ایک طاقت بن سکتی ہے۔
طالبان کے ساتھ بات کی گئی تو آج مسائل تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور باہمی طور پر اچھے تعلقات بن چکے ہیں۔ شام پر قابض گروہ بنیادی طور پر اخوانی فکر رکھتا ہے۔تھوڑی بہت اونچ نیچ ہے۔ آپ ملاحظہ کریں کہ انہیں حماس نے آفیشل مبارکباد دی ہے۔ ایران اور حزب اللہ کے حماس اور اخوان کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا، آگے کے منظر نامے کے مطابق اسے بھلایا جا سکتا ہے۔ بالخصوص جب داعش جیسے عناصر کے خلاف کارروائی کی گئی، جو شیعہ سنی سب کے دشمن تھے۔ آپ تھوڑا سا غور کریں تو شام کی موجودہ قیادت کی اہلسنت عوام میں جڑیں ہیں۔ یعنی ایک مکمل پاپولر پہلو موجود ہے۔ یہ اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اہل غزہ کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی اہل غزہ کی حمایت اور اسرائیل سے شام کے دفاع کے حوالے سے جو بھی حکمت عملی ہوگی، اس پر بات ہوسکتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کی سرزمین پر موجود ہے اور اپنی طاقت سے موجود رہے گی۔ حزب اللہ نے لبنان کے ایک دو دیہات کے علاوہ سارا علاقہ خالی کرا لیا ہے۔ وہ اسرائیل جو راتوں رات دمشق کے قریب پہنچ گیا، حزب اللہ نے اسے پانچ کلومیٹر بھی لبنان کے اندر نہیں آنے دیا۔ ان حالات میں خود شام میں اقتدار میں آنے والوں کو حزب اللہ اور ایران کی شدید ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کردوں کے خلاف انہیں استعمال کرے گا اور کرنا شروع بھی کرچکا ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھا جائے گا۔ترکی، قطر اور کوئی بھی ملک اسرائیل کے خلاف شام کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اس طرح تعاون کا ایک مضبوط سلسلہ بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ترجمان نے درست کہا کہ اب یہ شام کے عوام پر ہے کہ وہ جس طرح کی چاہیں حکومت بنا لیں۔ اس سے مزاحمت کو مقامی طاقتور آواز مل جائے گی اور بشار والی صورتحال بھی نہ ہوگی کہ وسائل بڑی مقدار میں دمشق کی حکومت کو بچانے میں ہی خرچ ہو جائیں۔ امید ہے کہ قرآن کی اس آیت کے مطابق ہوگا: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ" (آل عمران ۵۴) "ان لوگوں نے تدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔" (آل عمران ۵۴)