1
Sunday 8 Dec 2024 00:12

رجب طیب اردگان کا دوبارہ جوا

رجب طیب اردگان کا دوبارہ جوا
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
شام میں جو کچھ بھی ہوا وہ ترکی کا پراجیکٹ ہے جس کا بنیادی مقصد شام میں اثرورسوخ بڑھانا اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے حالات میں اپنے کردار میں اضافہ کرنا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سوچ رہے ہیں کہ اگر وہ شام کے دو صوبوں ادلب اور حلب پر مشتمل ایک ایسی مقامی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا سو فیصد انحصار ترکی پر ہو تو گویا وہاں جمہوریہ نخجوان جیسی ریاست معرض وجود میں آ جائے گی اور اس کے ذریعے ترکی شام کے حالات اور خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں ایک موثر طاقت بن کر سامنے آ جائے گا۔ لہذا چونکہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، انہوں نے غزہ اور لبنان میں شروع ہونے والی حالیہ جنگوں کی آڑ میں موقع سے فائدہ اٹھایا اور خطے میں اپنا نیا محاذ کھول دیا۔
 
البتہ اس مقصد کے حصول کے لیے رجب طیب اردگان نے جو ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے وہ "دہشت گردی" کا ہتھکنڈہ ہے جبکہ دہشت گردی کا حربہ اس سے پہلے بھی شام میں استعمال ہو چکا ہے اور اس کے نتائج بھی پوری دنیا دیکھ چکی ہے جو شکست اور ناکامی پر مشتمل تھے۔ لہذا ترکی نے ایک ایسے پراجیکٹ پر سرمایہ کاری کی ہے جو پہلے سے ہی شکست خوردہ ہے اور وہ رجب طیب اردگان کے لیے مفید نتائج فراہم نہیں کر پائے گا۔ خاص طور پر یہ کہ حال ہی میں شام میں سرگرم عمل ہونے والے ترکی کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد گروہوں اور شام حکومت کے سیاسی مخالفین کا گٹھ جوڑ انجام دے کر انہیں ایک مشترکہ کنٹرول روم میں اکٹھا کیا گیا ہے جس کا نام "فتح المبین" رکھا گیا ہے تاکہ یوں ترکی کی فوج کی مرکزیت میں فوجی اقدامات انجام پا سکیں۔
 
اس وقت شام حکومت اور فوج نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سپلائی لائن اور لاجسٹک سپورٹ ختم کرنے پر مبنی ہے۔ یہ فوجی حکمت عملی درست ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ شام اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گذشتہ دس دنوں میں جو کچھ ہوا اس کا ازالہ کر پائے گا اور شام میں میدان جنگ کی کایا پلٹ دی جائے گی۔ دوسری طرف شام میں رونما ہونے والے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں جنگ کے مزید شعلے بلند ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے۔ اگرچہ تمام فریق جنگ کا دائرہ پھیل جانے کی نسبت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن جنگ کی ذات کچھ ایسی ہے کہ اگر اس کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے تو وہ کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یعنی جو گولی چلاتا ہے اور اس کے بعد تشویش کا اظہار کرتا ہے، ضروری نہیں گولی اس نشانے پر لگنے سے روک سکے جس کی طرف گولی چلائی گئی ہے۔
 
لہذا جنگ کا دائرہ پھیل جانے کا امکان پایا جاتا ہے، اگرچہ فریقین یہ سمجھتے ہوئے کہ جنگ کا پھیلاو ان کے مطالبات سے ہم آہنگ نہیں ہے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کوئی ایسا اقدام انجام نہ دیں جس سے جنگ مزید شعلہ ور ہو جائے اور اس کا دائرہ مزید پھیل جائے۔ یوں یہ حقیقت قابل تصور ہے کہ خطے کا مستقبل اس چیز سے جدا نہیں جو آج انجام پا رہی ہے۔ یعنی جو چیز مستقبل تشکیل دیتی ہے وہ موجودہ حالات ہیں اور خطے کی موجودہ طاقتیں ہیں۔ مغربی طاقتوں اور ان سے وابستہ کچھ علاقائی حکومتوں نے گذشتہ دس پندرہ برس کے دوران خطے کے زمینی حقائق تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اور مخصوص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر اپنے حق میں حالات تبدیل کرنے کی کاوش کی ہے جس کا نتیجہ سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔
 
اگر ہم 2011ء سے 2020ء تک کے شام کے حالات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ یہ پراجیکٹ شکست خوردہ ہے، لہذا مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ یعنی ہم مستقبل میں موجودہ فضا جاری رہنے کا مشاہدہ کریں گے؛ یعنی ایک طرف اسلامی مزاحمتی بلاک اور دوسری طرف دہشت گرد، البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہذا جیسا کہ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے، مستقبل میں علاقائی اور عالمی سطح پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی وسعت میں مزید اضافہ ہو گا۔ ممکن ہے اس وسعت اور پھیلاو کا دائرہ مشرقی ایشیا یا افریقہ تک پھیل جائے۔ بہرحال، یہ اسلامی مزاحمت کے سامنے فراہم ہونے والے مواقع ہیں اور مجھے بنیادی طور پر خطے میں اسلامی مزاحمت کمزور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
 
ایک اور نکتہ یہ کہ مستقبل میں خطے میں کسی بڑی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کریں گے، جیسا کہ آپ نے دیکھا گذشتہ دو برس میں مختلف میدانوں میں سرتوڑ کوششیں انجام پانے کے باوجود خطے میں سب جوں کے توں ہیں؛ مثال کے طور پر ایران اپنی جگہ بیٹھا ہے اور امریکی حکمرانوں کی ناراضگی کے باوجود اس کے عراق سے اچھے تعلقات نہ صرف باقی رہے ہیں بلکہ ان میں مزید گہرائی آئی ہے۔ ایران اور شام کے تعلقات بھی محفوظ رہے ہیں اور دمشق حکومت بھی باقی رہی ہے۔ حزب اللہ لبنان، شدید دباو اور بحرانوں کے باوجود محفوظ ہے۔ فلسطین اور یمن میں اسلامی مزاحمت بھی بدستور جاری و ساری ہے۔ رونما ہونے والے حالات نے خطے میں کوئی تبدیلی ایجاد نہیں کی اور یہ بھی دور از امکان ہے کہ موجودہ اور آئندہ حالات و واقعات علاقائی طاقتوں کی صورتحال میں بنیادی تبدیلی لا سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1177068
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش