تحریر: علی احمدی
جس دن سے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے وسیع پیمانے پر شام کے اہم فوجی، اسٹریٹجک اور دفاعی مراکز کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔ اب تک کی موصولہ رپورٹس کے مطابق غاصب صیہونی رژیم شام کے انفرااسٹرکچر اور فوجی تنصیبات پر 300 سے زائد فضائی حملے انجام دے چکا ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: کیوں اسرائیل نے انتہائی وسیع پیمانے پر شام کے فوجی اور دفاعی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور وہ ان اقدامات کے ذریعے کیا اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ روئٹرز اور روسیا الیوم کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضائی جارحیت کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونی رژیم نے فوجی چڑھائی بھی شروع کر دی ہے اور اب تک دمشق کے جنوب کی جانب چند دیہاتوں اور قصبوں پر غاصبانہ قبضہ بھی جما لیا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان کی سرحد کے قریب دمشق کے جنوبی حصے میں فوجی پیشقدمی اور خان الشیخ اور قطنا کی جانب آگے بڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو شام میں پیدا ہونے والے موجودہ بحران کو سنہری موقع سمجھ کر حتی دمشق کو بھی ہڑپ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ مزید برآں، صیہونی رژیم اپنے جنگی اور ڈرون طیاروں کی مدد سے شام آرمی کے فوجی ٹھکانوں کو بھی مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ دمشق، حمص اور قامشلی کے قریب شام کے تین اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ایئربیسز پر صیہونی بمباری اور ساحلی شہر لاذقیہ میں شام آرمی کے فوجی مراکز پر حملے، وہ معنی خیز اقدامات ہیں، جنہیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں صیہونی رژیم کے نمائندے ڈینی ڈینون نے دعویٰ کیا ہے کہ: "ہم نے شام اور اسرائیل کی سرحد کے قریب ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے محدود پیمانے پر اقدامات انجام دیئے ہیں۔"
گولان سے دمشق تک
اب تک غاصب صیہونی رژیم اس بات پر زور دیتی آئی تھی کہ گولان ہائٹس ایک اہم خطہ ہے اور اسرائیل کی بقا کے لیے فوجی خطرہ ہے۔ لیکن اب اس نے ایسے علاقوں پر حملہ کیا ہے، جن کا بنیادی طور پر مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم پوری طاقت سے شام کی دفاعی صلاحیتیں تباہ کرنے کے درپے ہے اور یہ عرب ملک مستقبل قریب میں شدید سکیورٹی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام نے صیہونی جارحیت پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہا۔ گذشتہ چند دنوں میں بنجمن نیتن یاہو کا ایک شرارت آمیز اقدام یہ تھا کہ اس نے اپنے اور شام کے درمیان طے پانے والے 1974ء کے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کی فوج ایسے وقت مقبوضہ گولان ہائٹس میں داخل ہوچکی ہے، جب اقوام متحدہ نے اس غاصبانہ اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور گولان ہائٹس میں استحکام باقی رہنے کے لیے 1974ء کے معاہدے کی پابندی پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے اس غیر اخلاقی اور غاصبانہ اقدام سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی فورسز اس علاقے میں باقی رہیں گی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے بھی گولان ہائٹس کے تین مقامات پر صیہونی فوج کی موجودگی کو 1974ء معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان، کویت، قطر، اردن، یمن اور ایران نے بھی شام کے سرحدی علاقوں پر صیہونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کی مذمت کی ہے۔ ماضی کے تجربات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اپنا غاصبانہ قبضہ پھیلانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
رجب طیب اردوغان اور ابو محمد الجولانی کیوں خاموش ہیں؟
جس روز ابو محمد الجولانی کے زیر سربراہی تکفیری دہشت گردوں نے حلب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا تھا، انہوں نے فلسطینی پرچم کے علاوہ ہر پرچم اور علامت کی توہین کی تھی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ گویا ان کی دشمنی صرف ایران سے ہے لیکن وہ فلسطین کے حامی ہیں۔ لیکن اب جس وقت فلسطین کے سب سے بڑے دشمن، یعنی غاصب صیہونی رژیم نے ایسے علاقے کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے، جو ان تکفیری دہشت گرد عناصر کے زیر کنٹرول ہیں تو وہ گونگے ہوگئے ہیں اور ان کی جانب سے کوئی ردعمل ہی سامنے نہیں آرہا۔ لہذا ابو محمد الجولانی اور اس کے ساتھیوں کی یہ خاموشی اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ پہلے سے ہی نیتن یاہو کے اس اقدام سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اسرائیل سے ان کی سازباز ہوچکی تھی۔ شام کی دفاعی صلاحیتں مکمل طور پر تباہ ہو جانا تکفیری دہشت گردوں اور اسرائیل دونوں کا مشترکہ مفاد ہے۔
دوسری طرف رجب طیب اردوغان کی سربراہی میں ترکی حکومت، جس نے پوری طرح ھیئت تحریر الشام کو فوجی، مالی اور سیاسی مدد فراہم کی ہے اور صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے، وہ بھی شام پر حالیہ صیہونی فوجی جارحیت پر پراسرار اور مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ترکی کے اس رویئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے موجودہ صورتحال پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی یہ صورتحال اس کے لیے قابل تشویش ہے۔ دوسری طرف اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم کا واحد ایجنڈہ خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثرورسوخ ختم کرنا اور اسلامی مزاحمتی محاذ کی نابودی ہے۔ لیکن وہ حقیقت جس سے ترکی کے حکمران غافل ہیں، یہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم شام کے ساتھ ساتھ ترکی کی سلامتی اور دفاعی صلاحیتوں کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے، لہذا اگلی باری ترکی کی بھی ہوسکتی ہے۔