Monday 9 Dec 2024 01:06
تحقیق: سید تنویر حیدر
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کا ماہ رجب اپنے اندر ایسی خاص علامات لیے ہوئے ہے، جو ظہور امام زمانہ کے نزدیک تر ہونے کی علامت ہیں۔ ان میں سے کچھ خاص نشانیاں حسب ذیل ہیں، جنہیں آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورت حال کے پیش نظر جاننا ضروری ہے۔
بارشوں کی کثرت
روایات کے مطابق ظہور امامؑ سے پہلے کے ماہ رجب میں اس قدر طوفانی بارشیں ہوں گی، جو دنیا نے اس سے قبل دیکھی نہیں ہوں گی۔ یہ بارشیں جمادی الثانی کے آخری عشرے سے دس رجب تک ہوں گی۔ یعنی ان بارشوں کا سلسلہ 24 روز تک جاری رہے گا، جس کی وجہ سے کئی علاقے زیر آب آجائیں گے۔ آئمہ اہل بیتؑ نے ان بارشوں اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج کا ذکر خاص طور پر کیا ہے۔ مثلاً امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں ”جس دن حضرت قائم کے قیام کا وقت آن پہنچے گا تو لوگوں پر بارشیں برسیں گی۔ یہ بارشیں جمادی الآخر کے آخر میں شروع ہوں گی اور 10 رجب تک جاری رہیں گی۔ ایسی بارشیں ہوں گی، جن کی مثال کسی نے نہ دیکھی ہوگی۔ (بحارالانوار، جلد ج)۔ ان بارشوں کے اثرات کا اندازہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ایک اور روایت سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا۔ ”کامیابی اور فتح کے دن دریائے فرات ابل پڑے گا، اس کا پانی کوفہ کی گلی کوچوں میں داخل ہو جائے گا۔“
ایک روایت میں امام زمانہؑ کے ظہور سے قبل بصرہ کے ڈوبنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ شاید یہ انہی بارشوں کی وجہ سے ہو۔ امیر المومنینؑ نے بھی شاید انہی بارشوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جو کچھ جمادی الثانی اور رجب کے درمیان وقوع پذیر ہوگا، اس سے سخت حیرت ہے اور یہ بہت ہی حیران اور تعجب انگیز واقعہ ہوگا۔“ (الارشاد، ج)۔ اس روایت سے اس مخصوص عرصے میں عالمی سطح پر پیش آنے والے دوسرے اہم واقعات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مثلاً شام کا موجودہ بحران۔ روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ ان بارشوں سے قبل شدید قحط بھی پڑے گا لیکن روایات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ بارشیں امامؑ کے ظہور سے قبل ہوں گی یا بعد میں؟ البتہ آج جس قسم کا قحط ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ماہ رجب میں زلزلہ
امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے رجب کے مہینے میں شام کے شہر دمشق میں اور اس کے قرب و جوار میں ایک بڑے زلزلے کی خبر دی گئی ہے۔ روایات میں زلزلے کے لیے ”رجفعہ“ اور ”خسف“ کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس بھیانک زلزلے میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ اس زلزلے یا اس سے متصل کسی اور حادثے میں ”مسجد دمشق“ کا مغربی حصہ اور دمشق کے اطراف کے بعض علاقے منہدم ہو جائیں گے، جن میں شہر دمشق کے جوار میں واقع ”حرستا“ یا ”جابیہ“ نامی ایک بستی کے زمین میں دھنسنے کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ یہ زلزلہ کسی بڑے دھماکے کے نتیجے میں بھی ہوسکتا ہے۔ (مخطوطہ ابن حماد) اس زلزلے میں جس مسجد دمشق کے ایک حصے کے منہدم ہونے کی بات کی گئی ہے، اس کی تاریخی اہمیت ہے۔
مسجد دمشق دنیائے اسلام کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ اسے ”مسجد امیہ“ اور ”مسجد اموی“ بھی کہا جاتا ہے، جسے بنی امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک نے 715 ہجری میں تعمیر کروایا تھا۔ شام میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں جس ”حرستا“ کے زمین میں دھنسنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو شام کے دارالحکومت دمشق کے شمال مشرق میں ”ڈوما“ ضلع کا ایک قصبہ ہے، جو دمشق سے ”حمص“ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ اس کا دمشق سے فاصلہ 10 کلومیٹر ہے۔ داعش نے آج سے کئی سال قبل امیر المومنین (ع) کے جن صحابی جناب حجر بن عدیؓ کی قبر کی بےحرمتی کی تھی، ان کا مزار اسی قصبے میں واقع ہے۔
یہ زلزلہ کس کے لیے تباہی لائے گا؟
حضرت امام باقر علیہ السلام نے امیرالمومنین (ع) کے حوالے سے اس زلزلے یا رجفہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ زلزلہ مومنین کے لیے رحمت اور کافرین کے لیے عذاب ہوگا۔ (بحارالانوار، ج) گویا اس زلزلے کا مرکز ان باغیوں اور تکفیریوں کے زیر تسلط علاقہ ہوگا، جن کی پشت پناہی یہود و نصاریٰ اور استکباری طاقتیں کر رہی ہوں گی۔ روایات کے مطابق اس زلزلے سے قبل شام میں مختلف گروہ باہم برسر پیکار ہوں گے۔ یہ زلزلہ ان پر قہرالہیٰ بن کر ٹوٹے گا، جس سے مومن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس زلزلے کے فوراً بعد ماہ رجب کے آخری عشرے میں سفیانی، یمانی اور خراسانی کی افواج کا ایک ہی دن خروج ہوگا۔ سفیانی کی منزل دمشق ہوگی، لیکن دمشق تک پہنچنے سے پہلے ماہ رمضان تک یعنی تین ماہ تک اپنے راستے میں آنے والے کئی گروہوں یا لشکروں کا خاتمہ کرے گا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے، جو دشمنان اہل بیتؑ سے ہوں گے۔
البتہ ماہ رمضان کے بعد اس کا رخ شیعان حیدر کرار کی طرف ہوجائے گا اور ان کا قتل عام کرے گا، قتل عام کا یہ سلسلہ اگلے تین ماہ تک یعنی ماہ محرم اور امام زمانہؑ کے ظہور تک جاری رہے گا۔ روایات میں سفیانی سے قبل ”عوف اسلمی“ کے خروج کا ذکر بھی ملتا ہے، جو اپنے لشکر کے ساتھ دمشق پر چڑھ دوڑے گا لیکن اسے دمشق میں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ شخص سفیانی کے خروج کی راہ ہموار کرے گا۔ اگر ہم آنے والے رجب کو یہی رجب سمجھ لیں تو ”ھیۃ تحریر الشام“ کے رہنماء جولانی میں ہمیں عوف اسلمی کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ ہم از راہ احتیاط کسی شخصیت کو کسی شخصیت پر منطبق نہیں کرتے، لیکن معصومینؑ نے امامؑ کے ظہور کے حوالے سے ہمارے لیے جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں، ان پر ایک دائرے میں رہ کر بحث و تمحیص ضرور کرسکتے ہیں اور امامؑ کے ظہور کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرسکتے ہیں۔
اللًّهُــمَ صَّــلِ عَــلَى مُحَمَّــدٍ وَ آلِ مُحَمَّــَد و عَجِّــلّ فَّرَجَهُــم
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کا ماہ رجب اپنے اندر ایسی خاص علامات لیے ہوئے ہے، جو ظہور امام زمانہ کے نزدیک تر ہونے کی علامت ہیں۔ ان میں سے کچھ خاص نشانیاں حسب ذیل ہیں، جنہیں آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورت حال کے پیش نظر جاننا ضروری ہے۔
بارشوں کی کثرت
روایات کے مطابق ظہور امامؑ سے پہلے کے ماہ رجب میں اس قدر طوفانی بارشیں ہوں گی، جو دنیا نے اس سے قبل دیکھی نہیں ہوں گی۔ یہ بارشیں جمادی الثانی کے آخری عشرے سے دس رجب تک ہوں گی۔ یعنی ان بارشوں کا سلسلہ 24 روز تک جاری رہے گا، جس کی وجہ سے کئی علاقے زیر آب آجائیں گے۔ آئمہ اہل بیتؑ نے ان بارشوں اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج کا ذکر خاص طور پر کیا ہے۔ مثلاً امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں ”جس دن حضرت قائم کے قیام کا وقت آن پہنچے گا تو لوگوں پر بارشیں برسیں گی۔ یہ بارشیں جمادی الآخر کے آخر میں شروع ہوں گی اور 10 رجب تک جاری رہیں گی۔ ایسی بارشیں ہوں گی، جن کی مثال کسی نے نہ دیکھی ہوگی۔ (بحارالانوار، جلد ج)۔ ان بارشوں کے اثرات کا اندازہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ایک اور روایت سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا۔ ”کامیابی اور فتح کے دن دریائے فرات ابل پڑے گا، اس کا پانی کوفہ کی گلی کوچوں میں داخل ہو جائے گا۔“
ایک روایت میں امام زمانہؑ کے ظہور سے قبل بصرہ کے ڈوبنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ شاید یہ انہی بارشوں کی وجہ سے ہو۔ امیر المومنینؑ نے بھی شاید انہی بارشوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جو کچھ جمادی الثانی اور رجب کے درمیان وقوع پذیر ہوگا، اس سے سخت حیرت ہے اور یہ بہت ہی حیران اور تعجب انگیز واقعہ ہوگا۔“ (الارشاد، ج)۔ اس روایت سے اس مخصوص عرصے میں عالمی سطح پر پیش آنے والے دوسرے اہم واقعات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مثلاً شام کا موجودہ بحران۔ روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ ان بارشوں سے قبل شدید قحط بھی پڑے گا لیکن روایات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ بارشیں امامؑ کے ظہور سے قبل ہوں گی یا بعد میں؟ البتہ آج جس قسم کا قحط ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ماہ رجب میں زلزلہ
امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے رجب کے مہینے میں شام کے شہر دمشق میں اور اس کے قرب و جوار میں ایک بڑے زلزلے کی خبر دی گئی ہے۔ روایات میں زلزلے کے لیے ”رجفعہ“ اور ”خسف“ کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس بھیانک زلزلے میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ اس زلزلے یا اس سے متصل کسی اور حادثے میں ”مسجد دمشق“ کا مغربی حصہ اور دمشق کے اطراف کے بعض علاقے منہدم ہو جائیں گے، جن میں شہر دمشق کے جوار میں واقع ”حرستا“ یا ”جابیہ“ نامی ایک بستی کے زمین میں دھنسنے کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ یہ زلزلہ کسی بڑے دھماکے کے نتیجے میں بھی ہوسکتا ہے۔ (مخطوطہ ابن حماد) اس زلزلے میں جس مسجد دمشق کے ایک حصے کے منہدم ہونے کی بات کی گئی ہے، اس کی تاریخی اہمیت ہے۔
مسجد دمشق دنیائے اسلام کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ اسے ”مسجد امیہ“ اور ”مسجد اموی“ بھی کہا جاتا ہے، جسے بنی امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک نے 715 ہجری میں تعمیر کروایا تھا۔ شام میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں جس ”حرستا“ کے زمین میں دھنسنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو شام کے دارالحکومت دمشق کے شمال مشرق میں ”ڈوما“ ضلع کا ایک قصبہ ہے، جو دمشق سے ”حمص“ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ اس کا دمشق سے فاصلہ 10 کلومیٹر ہے۔ داعش نے آج سے کئی سال قبل امیر المومنین (ع) کے جن صحابی جناب حجر بن عدیؓ کی قبر کی بےحرمتی کی تھی، ان کا مزار اسی قصبے میں واقع ہے۔
یہ زلزلہ کس کے لیے تباہی لائے گا؟
حضرت امام باقر علیہ السلام نے امیرالمومنین (ع) کے حوالے سے اس زلزلے یا رجفہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ زلزلہ مومنین کے لیے رحمت اور کافرین کے لیے عذاب ہوگا۔ (بحارالانوار، ج) گویا اس زلزلے کا مرکز ان باغیوں اور تکفیریوں کے زیر تسلط علاقہ ہوگا، جن کی پشت پناہی یہود و نصاریٰ اور استکباری طاقتیں کر رہی ہوں گی۔ روایات کے مطابق اس زلزلے سے قبل شام میں مختلف گروہ باہم برسر پیکار ہوں گے۔ یہ زلزلہ ان پر قہرالہیٰ بن کر ٹوٹے گا، جس سے مومن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس زلزلے کے فوراً بعد ماہ رجب کے آخری عشرے میں سفیانی، یمانی اور خراسانی کی افواج کا ایک ہی دن خروج ہوگا۔ سفیانی کی منزل دمشق ہوگی، لیکن دمشق تک پہنچنے سے پہلے ماہ رمضان تک یعنی تین ماہ تک اپنے راستے میں آنے والے کئی گروہوں یا لشکروں کا خاتمہ کرے گا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے، جو دشمنان اہل بیتؑ سے ہوں گے۔
البتہ ماہ رمضان کے بعد اس کا رخ شیعان حیدر کرار کی طرف ہوجائے گا اور ان کا قتل عام کرے گا، قتل عام کا یہ سلسلہ اگلے تین ماہ تک یعنی ماہ محرم اور امام زمانہؑ کے ظہور تک جاری رہے گا۔ روایات میں سفیانی سے قبل ”عوف اسلمی“ کے خروج کا ذکر بھی ملتا ہے، جو اپنے لشکر کے ساتھ دمشق پر چڑھ دوڑے گا لیکن اسے دمشق میں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ شخص سفیانی کے خروج کی راہ ہموار کرے گا۔ اگر ہم آنے والے رجب کو یہی رجب سمجھ لیں تو ”ھیۃ تحریر الشام“ کے رہنماء جولانی میں ہمیں عوف اسلمی کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ ہم از راہ احتیاط کسی شخصیت کو کسی شخصیت پر منطبق نہیں کرتے، لیکن معصومینؑ نے امامؑ کے ظہور کے حوالے سے ہمارے لیے جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں، ان پر ایک دائرے میں رہ کر بحث و تمحیص ضرور کرسکتے ہیں اور امامؑ کے ظہور کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرسکتے ہیں۔
اللًّهُــمَ صَّــلِ عَــلَى مُحَمَّــدٍ وَ آلِ مُحَمَّــَد و عَجِّــلّ فَّرَجَهُــم
خبر کا کوڈ : 1177232
اللہم عجل لولیک الفرج
00
انور شاہین
سلام
آپ کے مضمون میں اس بات کو ہم سمجھ نہیں سکے کہ لشکر سفیانی اور دشمنان اہل بیت ع کا قتل عام کرے گا، پھر دوستان اہل بیت ع کا تین مہینے تک قتل عام کرے گا، یعنی سفیانی لشکر دونوں کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے۔؟
ماہ رجب کے آخری عشرے میں سفیانی، یمانی اور خراسانی کی افواج کا ایک ہی دن خروج ہوگا۔ سفیانی کی منزل دمشق ہوگی، لیکن دمشق تک پہنچنے سے پہلے ماہ رمضان تک یعنی تین ماہ تک اپنے راستے میں آنے والے کئی گروہوں یا لشکروں کا خاتمہ کرے گا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے، جو دشمنان اہل بیتؑ سے ہوں گے۔
البتہ ماہ رمضان کے بعد اس کا رخ شیعان حیدر کرار کی طرف ہو جائے گا اور ان کا قتل عام کرے گا، قتل عام کا یہ سلسلہ اگلے تین ماہ تک یعنی ماہ محرم اور امام زمانہؑ کے ظہور تک جاری رہے گا۔
آپ کے مضمون میں اس بات کو ہم سمجھ نہیں سکے کہ لشکر سفیانی اور دشمنان اہل بیت ع کا قتل عام کرے گا، پھر دوستان اہل بیت ع کا تین مہینے تک قتل عام کرے گا، یعنی سفیانی لشکر دونوں کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے۔؟
ماہ رجب کے آخری عشرے میں سفیانی، یمانی اور خراسانی کی افواج کا ایک ہی دن خروج ہوگا۔ سفیانی کی منزل دمشق ہوگی، لیکن دمشق تک پہنچنے سے پہلے ماہ رمضان تک یعنی تین ماہ تک اپنے راستے میں آنے والے کئی گروہوں یا لشکروں کا خاتمہ کرے گا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے، جو دشمنان اہل بیتؑ سے ہوں گے۔
البتہ ماہ رمضان کے بعد اس کا رخ شیعان حیدر کرار کی طرف ہو جائے گا اور ان کا قتل عام کرے گا، قتل عام کا یہ سلسلہ اگلے تین ماہ تک یعنی ماہ محرم اور امام زمانہؑ کے ظہور تک جاری رہے گا۔
منتخب
11 Dec 2024
10 Dec 2024
9 Dec 2024
10 Dec 2024
9 Dec 2024
9 Dec 2024