تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
گذشتہ بارہ دنوں میں مقبوضہ فلسطین کے پڑوس میں موجود آخری عرب ریاست شام بھی سقوط کر گئی اور یہاں مختلف دہشت گرد گروہوں نے شامی حکومت کے علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ ھیۃ تحریر الشام نامی یہ گروہ پہلے القاعدہ، داعش اور بعد میں جبھۃ النصرہ اور اب HTS کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شام کی حکومت کا خاتمہ بارہ دنوں میں ایک ڈرامائی انداز میں ہوا ہے، جس پر بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بشار الاسد جو ماضی میں دس سال داعش کا مقابلہ کرنے والے شام کا صدر تھا، اچانک سے ملک سے فرار کر گیا اور شام کے تمام علاقوں میں دہشتگردوں کا کنٹرول ہوگیا۔ شام کے سقوط نے ویسے تو درجن بھر سوالات کو جنم دیا ہے، لیکن فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل کارکنوں کو ایک سوال شدت سے تنگ کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا شام کے سقوط کے بعد فلسطین اور لبنان کی مزاحمت پہلے کی طرح ہوگی یا کمزور ہو جائے گی۔؟ کسی حد تک یہ سوال درست بھی ہے، کیونکہ ماضی میں حزب اللہ کے سربراہ شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی ایک تقریر میں بھی بیان کیا تھا کہ شام کا سقوط یعنی فلسطین کا معاملہ ختم۔
اب شام کے خلاف ہونے والی یہ سازش بھی دراصل امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اسی لئے بنائی گئی ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نابود کر دیا جائے اور خطے میں مزاحمت کو کمزور کیا جائے، لیکن پھر سوال وہی ہے کہ کیا شام کا سقوط خطے میں موجود مزاحمتی محور یا مزاحمتی تحریکوں پر اثر انداز ہوگا۔؟ اس عنوان سے کچھ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جی ہاں اب جو گروہ شام پر مسلط ہو رہے ہیں، وہ سب کے سب امریکہ اور اسرائیل نواز ہیں اور خود سب سے بڑھ کر ان کی مدد کرنے والا ملک ترکی بھی اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ لہذا ماہرین سیاسی امور کا کہنا ہے کہ مزاحمت کو ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا سب سے زیادہ اثر حزب اللہ لبنان پر پڑے گا۔
البتہ اس رائے کے مقابلہ میں ایک اور رائے بھی موجود ہے کہ اس رائے کے حامی سیاسی مفکرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1980ء کے بعد سے خطے میں مزاحمت جس قدر ترقی یافتہ اور پیش رفت کرتی رہی ہے، اسکے رویہ کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا ہے کہ شام کے سقوط سے فلسطین اور لبنان کی مزاحمت کو زیادہ خطرات لاحق ہوں گے۔ البتہ شام کی موجودہ پوزیشن اب گذشتہ جیسی نہیں ہوگی کہ جس میں بشار الاسد موجود تھے۔ اس رائے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جس طرح مزاحمت نے اپنی جڑوں کو یمن اور غزہ میں مضبوط کیا ہے، اسی طرح لبنان کی مزاحمت پر بھی شام کے سقوط سے کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ابھی بھی شام کو پہلے والا شام ہی سمجھتے ہیں اور شام کو مزاحمت کے بلاک اور محور سے علیحدہ تصور نہیں کرتے۔
یہاں ایران کے وزیر خارجہ کا یہ بیان اس لئے نقل کیا گیا ہے، کیونکہ کچھ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ شام کے سقوط سے ایران کو نقصان ہوگا اور ایران کی حزب اللہ تک اسلحہ کی رسائی متاثر ہوگی، لہذا کچھ سیاسی مبصرین اس کو ایران کی شکست بھی قرار دے رہے ہیں۔ میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم شام کا سقوط شام یا ایران یا کسی اور کی شکست ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ شام کو اندر سے توڑنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے آلہ کاروں نے ضرور اپنی نوکری نبھائی ہے اور اس کا خمیازہ دیر سے یا جلد ان دہشت گرد گروہوں کو اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ شام کا سقوط ایران یا کسی اور کی شکست ہو یا نہ ہو، لیکن یہ شام سمیت خطے کی تمام ریاستوں کی، چاہے وہ شام کے مخالف ہوں یا دوست ہوں، سب کے لئے نقصان دہ ہے۔
جہاں تک ایران کی جانب سے حزب اللہ کی مدد کرنے کی بات ہے تو اس بارے میں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ جب یمن کی مزاحمت کھڑی ہوسکتی ہے اور غزہ میں اسلحہ کی مدد پہنچ سکتی ہے تو پھر لبنان کی حزب اللہ کے لئے بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شام کے سقوط سے نہ تو فلسطین کی مزاحمت کمزور ہوگی اور نہ ہی لبنان میں موجود مزاحمت کو کوئی فرق پڑے گا۔ البتہ یہ شامی عوام کے مستقبل کا سوال ہے کہ اب شام کے عوام کو کس طرح کے حالات کا سامنا ہوگا۔ میری یہی دعا ہے کہ دہشت گرد گروہ گلی محلوں میں انسانوں کا خون نہ بہائیں اور اگر کسی کے خلاف لڑنا ہی ہے تو اسرائیل کے خلاف جہاد کریں۔