1
Thursday 5 Dec 2024 21:06

عرب ممالک فلسطین کاز اور اسلامی مزاحمت

عرب ممالک فلسطین کاز اور اسلامی مزاحمت
تحریر: حسین مرزائی
 
عرب ممالک روایتی طور پر ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو صرف عرب دنیا سے مربوط مسئلہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں لیکن وہ حقیقت جس کا انکار ممکن نہیں، یہ ہے عرب ممالک مسئلہ فلسطین کو انسانی یا اسلامی تناظر میں نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہر عرب ملک اپنے قومی مفادات کے پیش نظر خود کو فلسطین کاز کے لیے زیادہ سرگرم اور فعال ظاہر کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ اس وقت فلسطینی قوم ایسی شدید نسل کشی سے روبرو ہے جس کی مثال نہیں ملتی جبکہ عالمی برادری نے اب تک اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل چند عرب ممالک کے علاوہ دیگر عرب ممالک اس تنازعے کے خاتمے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ فلسطین کاز ان عرب حکومتوں کے لیے داخلہ سیاست میں ایک طاقتور ہتھکنڈہ بن چکا ہے اور وہ اسے اقتدار میں باقی رہنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
 
دوسری طرف، اگرچہ عرب ممالک کی عوام خود کو ایک عرب اسلامی جسم کا حصہ تصور کرتی ہیں لیکن عرب حکومتیں قوم پرستانہ جذبات کے تحت ایسا تصور نہیں رکھتیں جس کی واضح مثال مراکش اور الجزائر یا تیونس اور مصر میں مقابلہ بازی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا، عرب لیگ کی نشستوں کی طرح ان ممالک کا ایک ساتھ بیٹھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، لہذا ان معاہدوں اور ملاقاتوں کے جاری رہنے کے لیے ان کے مفادات بہت حد تک یہ تنازعہ جاری رہنے سے وابستہ ہیں۔ ان حکومتوں کی نظر میں اگر اسرائیل اور فلسطین میں جاری تنازعات ختم ہو جاتے ہیں تو اسرائیل زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے اور مستقبل میں ان کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت غاصب صیہونی رژیم کی جی ڈی پی (525 ارب ڈالر) ان تمام عرب ممالک سے زیادہ ہے، لہذا موجودہ جنگ اسرائیل کو علاقائی طاقت بننے سے روک رہی ہے۔
 
عرب ممالک کی نظر میں بیت المقدس کی حیثیت، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان عرب ممالک کا خیال ہے کہ اگر فلسطین اس مقدس مقام (مسجد اقصی) کو اپنا حصہ بناتا ہے تو عربوں میں موجود مقابلہ بازی کے تناظر میں ممکن ہے انہیں زیادہ اچھا محسوس نہ ہو۔ شاید یوں کہنا ممکن ہو گا کہ اسلامی مزاحمتی بلاک سے باہر عرب ممالک میں مسئلہ فلسطین حل ہونے اور اسرائیل نابود ہو جانے کا زیادہ شوق نہیں پایا جاتا۔ شاید سعودی عرب وہ واحد عرب ملک ہے جو حقیقت میں فلسطین میں تنازعات کا خاتمہ چاہتا ہے۔ دراصل، شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مدنظر ایسے اہداف ہیں جن کے لیے مغربی ایشیا میں امن و امان اور استحکام بہت ضروری ہے۔ یاد رہے 2020ء میں سعودی عرب کی سرپرستی میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نیز اسرائیل اور بحرین کے درمیان ابراہیم معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔
 
سعودی عرب دیکھ رہا تھا کہ گذشتہ چار سال کے دوران اس معاہدے کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں تجارت بڑھ گئی ہے۔ لہذا یہاں سیاسی اقتصادی پہلو زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ محمد بن سلمان تعلقات کی بحالی کے ساتھ ساتھ مذہبی لحاظ سے بھی مکہ مکرمہ اور یروشلم میں تعلقات بڑھانے کے درپے ہیں۔ وہ چونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں لہذا اہلسنت دنیا کا روحانی پیشوا بننا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ مسجد اقصی کے انتظامی امور سنبھالنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے محمد بن سلمان کی بہت زیادہ خواہش ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین حل کرنے والے لیڈر بن جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فلسطینی ریاست کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں مذاکرات ہر گز تعطل کا شکار نہیں ہوئے، خاص طور پر یہ کہ یہ مذاکرات امریکہ کی سرپرستی میں انجام پا رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں مغربی محاذ، ایشیا میں روس، چین، شمالی کوریا اور ایران سے روبرو ہے اور اس خطے میں کوئی اتحادی مل جانا اس کے فائدے میں ہے۔ محمد بن سلمان نے ابتدا میں اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے دو شرطیں سامنے رکھیں: ایک فوجی امداد کی فراہمی اور دوسرا اسرائیل اور فلسطین میں صلح۔ جب یہ دونوں اہداف حاصل نہ ہوئے تو سعودی عرب نے ایران سے تناو کی شدت کم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں، سعودی عرب اور ایران نے 10 مارچ 2023ء کے دن اعلان کیا کہ بہت جلد سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔ آخرکار امریکہ نے بھی سعودی عرب کو اپنے ساتھ باقی رکھنے کے لیے اسے ایک ایٹمی ری ایکٹر پاور پلانٹ دینے کا عندیہ دیا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم اور فلسطین کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران اگرچہ تمام مسلمان اقوام نے کھل کر فلسطین کاز کی حمایت کی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ عرب حکومتوں نے حماس اور غزہ کی حمایت نہیں کی۔ طوفان الاقصی آپریشن اور اس کے بعد رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بعد عرب ممالک نے مختلف طریقوں سے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ عرب ممالک کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آپس میں متحدہ ہو کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں واحد موقف اپنانے سے گریز کر رہے ہیں اور اس مسئلے میں ان کے درمیان مقابلہ بازی پائی جاتی ہے۔ ایران مسئلہ فلسطین کو انسانی اور اسلامی تناظر میں دیکھتا ہے اور اسرائیل کے خلاف اسلامی دنیا کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ جب تک تمام اسلامی حکومتیں مل کر اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام نہیں دیں گی اس وقت تک اسرائیلی مظالم کی روک تھام ممکن نہیں ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 1176710
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش