اسلام ٹائمز۔ ترکی کی وطن پارٹی کے سربراہ دوگو پرینچک نے مہر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ شام میں جاری تکفیری فتنہ درحقیقت صیہونی فتنہ ہے اور ترکی حکومت نے شام کے موجودہ حالات سے متعلق جو موقف اختیار کر رکھا ہے وہ ہر گز ترک عوام کی ترجمانی نہیں کرتا۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا شام میں حالیہ تکفیری فتنہ خطے سے متعلق امریکہ اور اسرائیل کے گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کے تحت انجام پا رہا ہے؟ کہا: "اس وقت شام پوری انسانیت کی فرنٹ لائن پر کھڑا ہے۔ وہ سب سے پہلے مغربی ایشیا کی اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کی فرنٹ لائن ہے کیونکہ آج شام پوری شجاعت سے اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔ ھیئت تحریر الشام کا شام پر حملہ دراصل اسرائیل کا حملہ ہے۔ یہ اسرائیل ہے جو حلب میں داخل ہو چکا ہے۔ آج شام، ایران، روس، فلسطین، یمن اور ترکی کی عوام فرنٹ لائن پر ہیں۔ ہمارے دل شام، فلسطین اور ایران کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ شام اس فتنے سے کامیابی سے باہر نکل آئے گا۔ مختصر مدت میں جنگی حربے انجام پائیں گے اور پسپائی اختیار کی جائے گی۔ یہ وہ حقیقت ہے جو عالمی تاریخ میں ہمیشہ سے جنگوں میں دیکھی گئی ہے۔"
ترکی کی وطن پارٹی کے سربراہ نے مزید کہا: "البتہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ کی استعماریت زوال کا شکار ہو چکی ہے اور ڈالر کا اقتدار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں امریکہ کی فوجی طاقت کے خلاف بڑی بڑی فوجی طاقتیں ابھر کر سامنے آ چکی ہیں۔ روس، ایران، چین، ترکی اور شام وہی فوجی طاقتیں ہیں۔ امریکہ اس محاذ پر فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ غزہ کی اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کو بہت بڑا سبق سکھایا ہے۔ اسرائیل حتی ایک چھوٹے سے علاقے پر قبضہ نہیں کر سکا لہذا اس نے میدان جنگ کو فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام میں تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ہمارے خطے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم "وطن پارٹی" کی حیثیت سے ترکی کو صرف خاموش تماشائی کی صورت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ ترک قوم بھی اسی محاذ پر کھڑی ہے۔ ہمارے دل شامی قوم کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ شام میں دوبارہ استحکام پیدا ہو جائے گا۔ شام خطے کے ممالک خاص طور پر روس، ایران، دیگر عرب ممالک اور ترکی کی قوم کی مدد سے فتح یاب ہو گا۔ محاذ واضح ہیں اور ہمارے شمال میں روس بھی یوکرین میں امریکہ کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ ہم ترکی میں امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ جنوب میں فلسطین ہے جو شام کی طرح فرنٹ لائن پر لڑ رہا ہے۔"
ترکی کی وطن پارٹی کے سربراہ دوگو پرینچک نے اس سوال کے جواب میں کہ بعض تجزیہ کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ شام میں سرگرم کچھ دہشت گرد گروہوں کو ترکی کی فوجی حمایت حاصل ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ کہا: "ترکی کے کچھ اداروں میں ایسے نقطہ نظرات اور رجحانات پائے جاتے ہیں جو ماضی میں مغربی دنیا سے تعاون کی باقیات ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ مضبوط رجحان قومی رجحان ہے۔ اس رجحان نے ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ آستانہ مذاکرات بھی اسی رجحان کا نتیجہ تھے۔ حال ہی میں وطن پارٹی نے پیشکش کی ہے کہ ترکی شام کے شمالی حصوں میں شام، ایران اور روس سے تعاون کرے اور اسلام کا لبادہ اوڑھے اسلام دشمن دہشت گرد عناصر کا صفایا کر دے۔ وطن پارٹی نے اپنا منصوبہ شام، ایران، روس اور ترکی کی حکومتوں کو پیش کیا ہے۔ کچھ انجمنیں بھی موجود تھیں اور حال ہی میں رجب طیب اردگان نے بشار اسد کو ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ امریکہ اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کہیں ترکی مغربی ایشیا میں شام، ایران، عراق اور روس کے اتحاد میں شامل نہ ہو جائے۔ یوں علاقائی اور عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت حلب پر جو یلغار انجام پائی ہے وہ براہ راست امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے انجام پائی ہے۔"