تحریر: نذر حافی
مسٹر بشار الاسد فرار ہو کر ماسکو پہنچ گئے۔ ہر آفت اور مصیبت سے بڑی ایک مصیبت ہوتی ہے۔ بشار الاسد کے سقوط کے بعد ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر یہ بھول گئے ہیں کہ معاشرے تجزیہ و تحلیل کرنے اور بیداری سے آگے بڑھتے ہیں نہ کہ مشکل حالات میں کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے نیک تمنّاوں سے۔ ہماری یہ دنیا، کائنات، معاشرہ اور سماج ایک تجربہ گاہ اور لیبارٹری کی مانند ہے۔ بشار الاسد کا سقوط ہماری اس دنیا کی ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو دنیا کے اختتام کی نشانیوں میں سے قرار دینے کے بجائے ہمیں دنیا کی بقاء اور زندگی کی ارتقاء کیلئے یہ سوچنا چاہیئے کہ اس میں ہمارے لئے عبرت کا کیا سامان پوشیدہ ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ ہمارے ہاں بشار الاسد کے سقوط اور فرار کو ایک حقیقت اور تجربے کے طور پر فراخدلی سے قبول کرتے ہوئے اس کے پسِ پردہ عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔
تاہم ایسا تو نہ ہوا، لیکن ایک مخصوص غیر علمی مذہبی طبقے نے حسبِ عادت اس واقعے کا ملبہ بھی قیامت اور حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور پر ڈال دیا۔ ایسا ہی کرونا وائرس کی آمد کے وقت بھی کیا گیا تھا۔ ایسا طبقہ چونکہ خود علمی طور پر عقب ماندہ ہوتا ہے، لہذا یہ اپنی لچھے دار باتوں سے دوسروں کو بھی تجزیہ و تحلیل جیسی خداداد صلاحیّت سے استفادہ نہیں کرنے دیتا۔ کرونا وائرس کے موقع پر ایسے ہی لوگوں کی باتوں کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں نے مراجع کرام اور مجتہدین کے فتاویٰ کے باوجود حفاظتی ویکسین نہیں لگوائی، اپنا علاج نہیں کرایا اور بہت سارے اسی طرح موت کے منہ میں چلے گئے۔ بشار الاسد کے فرار کو بھی یہ لوگ اسی انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
جو اُن کا کام ہے، سو وہ انجام دے رہے ہیں، تاہم ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ مشرقِ وسطیٰ میں شام کی حیثیت ایک دِل کی سی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے شام کے اندر امریکہ، ترکی، خلیجی ریاستوں خصوصاً سعودی عرب اور قطر کیلئے ایران کی موجودگی ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ عرب نیشنلزم پر یقین کرنے کے بعد 2023ء سے بشار الاسد تیزی کے ساتھ ایران سے دور ہوتا گیا۔ شہید قاسم سلیمانی، اسماعیل ہنیہ اور سید حسن نصراللہ سمیت اعلیٰ درجے کی مقاومتی شخصیات کی شہادتیں بھی اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ گئیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں شام میں اسرائیل نے عسکری کارروائیاں کرکے پے در پے کئی اعلیٰ ایرانی شخصیات کو شہید کیا اور ایرانی ایمبیسی وغیرہ کو بھی نشانہ بنایا۔ وقتی طور پر ایران نے حوثیوں اور حماس پر خاص توجہ دی، تاہم اس توجہ نے بھی شام کے محاذ کی تلافی نہ کی۔ ایران کے اسرائیل پر ڈرون حملوں سے بھی وینٹی لیٹر پر پڑے ہوئے بشار لاسد کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔
شنید ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت نے بشار الاسد کو کئی مرتبہ عربوں پر اعتماد کرنے کی غلطی نہ کرنے کی تاکید کی، لیکن بشار الاسد نے یہ غلطی کی اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ غوروفکر کرنے والوں کیلئے یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ بشار الاسد نے آخری لمحے تک اس غلطی سے ہاتھ نہیں کھینچا؟ اس سوال کے جواب سے پہلے اتنا یاد رکھئے کہ دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور ہمیں بحیثیتِ پاکستانی بشار الاسد کے سقوط اور فرار سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بشار الاسد کی ایک اہم غلطی دہشت گردوں کو پناہ دینا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں کا شام سے مکمل صفایا کرنے کے بجائے بشار الاسد نے انہیں عرب قوم کے قیمتی اثاثے سمجھنا شروع کر دیا تھا اور ان کے خلاف مزید کسی کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔۔۔پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی دہشت گرد منظم ہوئے اور آناً فاناً دارالحکومت پر قابض ہوگئے۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ایران اور بشار الاسد کے خلاف دنیا بھر میں اور خصوصاً شام کے اندر ایک ہمہ جانبہ سوفٹ وار خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بڑی جنگ لڑی گئی، جس کے نتیجے میں شامی عوام کی اندر ایران و بشار الاسد کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی۔ بشار الاسد کی حکومت نے میڈیا وار کو خاص اہمیّت نہیں دی، چنانچہ سوشل میڈیا پر جدھر کی ہوا چلی، عوام کی اکثریت بھی اُسی طرف مُڑتی گئی۔ ایسا ہی وطن عزیز میں بھی ہو رہا ے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینے نیز غلط استعمال کو روکنے کے بجائے، سوشل میڈیا پر بے جا پابندیوں کا احمقانہ سہارا لیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی طور ملکی مفاد کے حق میں نہیں۔ بشار الاسد کے باغیوں کے سہولتکار اُس کی حکومت کے اندر ہی موجود تھے۔ اس وقت بھی باغیوں کی موجودہ حکومت کی سرپرستی سابق وزیراعظم ہی کر رہا ہے۔ نیز سابق حکومت کے اکثر وزراء ابھی بھی دمشق میں ہی ہیں۔
شامی حکومت میں دہشت گردوں کے سہولتکاروں کی موجودگی کا نتیجہ یہ ہے کہ بشار الاسد کے حاشیہ نشینوں اور اس کی کابینہ نے ایک طرف تو مقاومتی بلاک کو نقصان پہنچایا اور دوسری طرف بشار الاسد کو بھی انتہائی سستے داموں بیچ دیا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھی ایسے افراد کی موجودگی ایک بڑا خطرہ ہے، جو دہشت گرد ٹولوں کے ہم نوا، سہولتکار اور ہمدرد ہیں۔ اگرآپ اس آخری سال کے دوران ہی شام کی صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ بشار الاسد کی ایران سے دوری ایک سفارتی عمل کے طور پر وقوع پذیر ہوئی۔ امریکہ، یورپ اور عرب ریاستوں نے بشار الاسد کو جنگِ نرم کے ذریعے جہاں عرب قومیّت کے سبز باغ دکھائے، وہیں اسے اسلامی جمہوریہ ایران سے شدید ناامید کیا۔ یہ شدید ناامیدی بنیادی طور پر ڈپلومیسی، غلط تجزیہ و تحلیل، میڈیا، ڈس انفارمیشن، سوشل میڈیا اور بشار الاسد کی کابینہ میں موجود مغرض افراد کی مدد سے پھیلائی گئی۔ بشار الاسد نے جب اپنی امیدیں عربی نیشنلزم سے وابستہ کر لیں اور خدا اور اسلام سے مایوس ہوگیا تو اُس کا انجام یہی ہونا تھا۔
ہمارے ہاں بھی نظریہ پاکستان سے انحراف، نیز قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان سے انکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ کوئی معمولی انحراف نہیں۔ یاد رکھئے کہ جب کسی قوم کے بڑے ہی اپنے نظریات سے منحرف ہونے لگیں، کسی قائد کے اپنی ہی جیب میں کھوٹے سکّے پڑے ہوں، اُس کے دوست ہی اس کے دشمنوں کے آلہ کار بن جائیں اور اُس کے دشمن اُس کی ملّت کو ناامید اور مایوس کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ایسی قوم اپنے دشمنوں کے خلاف زیادہ دیر تک مقاومت نہیں کرسکتی۔ آپ اس وقت پاکستان کی صورتحال کا بھی جائزہ لیں، آج پاکستان کے عوام کو بھی ملک اور ملکی اداروں نیز سیاستدانوں، عدالتوں اور میڈیا وغیرہ سے مایوس کر دیا گیا ہے۔ لوگ اس ملک اور اس کے اداروں سے ناامید ہوچکے ہیں۔ ہماری دانست میں جلد از جلد اس ناامیدی کو امید میں بدلنے کا کوئی چارہ کیا جانا چاہیئے۔
ایران اپنے انقلاب اور پاکستان اپنے قیام کے بعد سے مسلسل سازشوں و مشکلات کا شکار ہے۔ ان مشکلات کے علاج کے حوالے سے ایران کے سُپریم لیڈر کا ایک حکمت آمیز جملہ ملاحظہ فرمائیے، یہ جملہ پاکستانیوں کے لئے بھی بہت اہم ہے: "میں نے پہلے سے کہا ہوا ہے اور آج پھر دہرا رہا ہوں۔۔۔۔ سب مسئولین جان لیں کہ ہماری ساری مشکلات کا علاج ہمارے اپنے ملک کے اندر ہی ہے۔ ہماری بہت ساری مشکلات ملک سے باہر کے ساتھ مربوط ہیں، لیکن اُن کا علاج ملک کے اندر ہی ہے۔
[1] جی ہاں! آئیے بشار الاسد کی مانند مشکلات سے فرار کرنے کے اور عقب ماندہ مذہبی عناصر کی طرح دین کو بطورِ افیون استعمال کرنے کے بجائے اپنے ملک کی مشکلات کے علاج کو اپنے ملک اندر ہی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی معاشرے کیلئے جتنا بڑا خطرہ مایوسی اور ناامیدی ہے، اتنا ہی بڑا خطرہ دین کو بطورِ افیون استعمال کرنا بھی ہے۔
[1] "من این را گفتهام، باز هم تکرار میکنم، تا فعّالان بخشهای گوناگونی که در زمینهی اقتصاد و غیر اقتصاد مسئول هستند همه بدانند که علاج همهی مشکلات در داخل کشور است. بسیاری از مشکلات ما مربوط به خارج از کشور است، امّا علاجش در داخل است۔"