اسلام ٹائمز۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار حسین الدیرانی نے مہر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کا پیادہ نظام ہیں۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ غاصب صیہونی رژیم اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جنگ بندی کے فوراً بعد شام میں حالیہ تکفیری فتنے کے آغاز کی کیا وجوہات ہیں؟ کہا: "شام کے شہروں حلب، حماہ اور حمص پر تکفیری دہشت گرد عناصر کی یلغار خاص طور پر صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر انجام پائی ہے۔ نیتن یاہو کو حزب اللہ لبنان کے خلاف شدید شکست کا سامنا ہوا تھا جس کے بعد اس نے شام کے صدر بشار اسد کو براہ راست دھمکی دی تھی اور دعوی کیا تھا کہ لبنان سے جنگ بندی کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنا ہے۔ ابھی نیتن یاہو کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ جدید اسلحہ سے لیس تکفیری دہشت گرد عناصر نے شام میں ہلہ بول دیا۔ البتہ یہ حملہ اچانک انجام نہیں پایا اور بہت پہلے سے امریکہ، اسرائیل، یوکرین، ترکی اور کچھ دیگر خلیجی ریاستیں اس کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے۔ ان حملوں کا واحد مقصد لبنان میں غاصب صیہونی رژیم کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا ہے۔"
حسین الدیرانی نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا شام میں حالیہ تکفیری فتنے کا مقصد ترکی کی جانب سے ٹرمپ کی مدت صدارت شروع ہونے سے پہلے مذاکرات میں اپنا پلڑا بھاری کرنے کے لیے دباو ڈالنا ہے یا اس کا مقصد شام کو توڑنا ہے؟ کہا: "غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے شام کے خلاف جارحانہ اقدامات کا آغاز طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے ہی ہو چکا تھا جو اب تک جاری تھے۔ البتہ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ان جارحانہ اقدامات میں شدت آئی تھی جن کا مقصد شام کی مسلح افواج کو جنوب میں مصروف کرنا تھا۔ شام کی مسلح افواج، حلب اور ادلب کے اردگرد تکفیری دہشت گردوں کی موجودگی کے سبب صیہونی جارحیت کا جواب نہیں دیتی تھیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم نے شام پر فوجی جارحیت کا کام اپنی پراکسی یعنی تکفیری دہشت گرد عناصر کو سونپ رکھا ہے۔ ترکی نے بھی کافی عرصے سے شام پر نظریں جما رکھی ہیں اور وہ مستقبل قریب میں شام کے شہر حلب اور عراق کے شہر کرکوک پر قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے شام کے موجودہ حالات اور ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے میں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا بلکہ شام کے حالات غاصب صیہونی رژیم اور ترکی کے توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ ہیں۔"
عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار نے اس سوال کے جواب میں کہ شام میں حالیہ تکفیری فتنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کہا: "شام میں حالیہ تکفیری فتنے کا اصل مقصد شام میں ایران کا اثرورسوخ ختم کرنا اور حزب اللہ لبنان کی لاجسٹک سپورٹ اور سپلائی لائن کاٹنا ہے۔ اس سے پہلے یہ بات اعلانیہ طور پر کہی جا چکی ہے کہ شام پر جارحانہ اقدامات کا مقصد شام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان سیاسی اور فوجی تعلق کا خاتمہ ہے۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے شام حکومت کو ایران سے تعلقات ختم کر دینے کے عوض بہت زیادہ لالچ دیا لیکن صدر بشار اسد نے اسے ٹھکرا دیا۔ مثال کے طور پر ان سے یہ کہا گیا کہ اگر وہ لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت ترک کر دیں تو انہیں ہمیشہ کے لیے اقتدار میں رہنے دیا جائے گا۔ دوسری طرف شام کے صدر بشار اسد نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ ہر گز ان قوتوں کی حمایت ترک نہیں کریں گے جنہوں نے داعش کے خلاف ان کی مدد کی۔ صیہونی دشمن بخوبی جانتا ہے کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی شہ رگ شام ہے، لہذا اپنے تمام تر فوجی اور شیطانی ہتھکنڈوں کے ذریعے صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی کوشش میں مصروف ہے۔"