0
Tuesday 10 Dec 2024 21:34

غم ہے یا خوشی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تو
تحریر: سید تنویر حیدر

اسلامی جمہوریہ ایران نے عرصہ دراز کی محنت شاقہ اور قربانیوں کے بعد اسرائیل کے مقابلے کے لیے عراق، لبنان، یمن اور حماس وغیرہ پر مشتمل ایک ”محور مقاومت“ تشکیل دیا تھا، جو جارح اسرائیل کے مقابلے میں ایک آہنی دیوار بن کر کھڑا ہوا تھا، لیکن نہ جانے کیوں مسلم دنیا کا ایک خاص طبقہ اسرائیلی جارحیت کے مقابل، میدان کارزار میں جمے ایران کی ہر حرکت میں کیڑے نکالنا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا تھا۔ ایران پر اپنے تیر و نشتر چلانے والے یہ ”مجاہد“ ان ممالک اور ان ”جہادی تنظیموں“ کے حوالے سے بالکل خاموش تھے، جو غزہ میں ہونے والے تاریخ کے بدترین قتل عام پر اپنی تاریخی چپ سادھے ہوئے تھے۔

ایران نے شام کے موجودہ بحران میں اپنی سرتوڑ کوشش کی کہ شام کی حکومت اس کی افواج کو شام میں داخلے کی اجازت دے، تاکہ وہ ملک شام کو اسرائیل کی جارحیت سے بچا سکے، لیکن ایک سیکولر نظریے کے حامل اور قوم پرست بشار الاسد جس نے اپنی تمام تر امیدیں روس کی مہربانیوں اور بعض عرب حکمرانوں کی یقین دہانیوں سے وابستہ کی ہوئی تھیں، ایران کی اس درخواست کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہوا اور یوں عرصے سے مملکت شام میں قائم ”بعث پارٹی“ کا اقتدار تیز ہوا کے ایک جھونکے سے ہوا برد ہوگیا۔

اس وقت صورت احوال یہ ہے کہ شام کا پورا علاقہ اسرائیل کے سامنے ایک دسترخوان کی طرح بچھا ہوا ہے اور صدیوں سے اشتہاء کے مارے صیہونی اسے تیزی سے چٹ کر جانے کی فکر میں ہیں۔ اسرائیل کی یہ بھوک محض شام کو ہڑپ کرنے سے نہیں مٹے گی بلکہ وہ اپنی شکم پروری کے لیے ابھی اپنے ارد گرد اور بھی ہاتھ مارے گا۔ اس وقت شام کے بعد اردن اور پھر مصر اسرائیل کے سامنے ترنوالے کی صورت میں اسے دعوت طعام دے رہے ہیں اور پھر عراق اور سعودی عرب اس کا اگلا ہدف ہوں گے۔ اردن اور مصر تو اوسلو امن معاہدے کے نتیجے میں خود کو پہلے ہی اسرائیل کا ”بفر زون“ بنا چکے ہیں نیز خود کو ایران سے دور کرچکے ہیں۔ اردن نے تو ایران کے اسرائیل پر گزشتہ حملے میں ایران کے میزائل روک کر ساری دنیا کے سامنے اپنی اس حیثیت کا برملا اعلان بھی کر دیا ہے۔

ایران نے اچھا کیا کہ اس نے بشار الاسد کے رویئے کو دیکھتے ہوئے اپنی رہی سہی افواج کو شام سے نکال لیا ہے۔ اب اردن اور مصر کی ”کانپیں ٹانگنا“ شروع ہوچکی ہیں، لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ اسرائیل اب مست ہاتھی کی طرح کسی ”ابراھیم امن معاہدے“ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کئی عرب ممالک کی طرف بڑھے گا۔ حتیٰ کہ وہ شام میں ان لشکریوں کو بھی نہیں بخشے گا، جنہوں نے اس کی جارحیت کا راستہ ہموار کیا ہے۔ ”ھیۃ التحریر الشام“ کی کامیابی پر جن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک رہے ہیں، اب ان کے یہ آنسو غم کے آنسووں میں ڈھلنے والے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1177604
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش