0
Monday 18 Sep 2023 12:20

پاکستان میں فرقہ واریت افغانستان میں امریکی شکست

پاکستان میں فرقہ واریت افغانستان میں امریکی شکست
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست اس بات سے تنگ آگئے کہ ہم ہر بات کا الزام بین الاقوامی استعمار پر ڈال کر اپنی نااہلیوں کو چھپا لیتے ہیں۔ ان کے تعلقات ذرا سفارتکاروں سے ہوئے تو یہ بھی کہنے لگے کہ سفارتکار کہتے ہیں کہ جب ہم اہل پاکستان کی طرف سے ایسی باتیں سنتے ہیں کہ آرمی چیف لگانے سے لے کر ہر جگہ پر ہمارے نشانات پائے جاتے ہیں تو ہم خود حیران ہوتے ہیں کہ واہ ہماری اتنی طاقت ہے۔ ہم نے عرض کیا حضرت اپنی نااہلیوں اور کام چوریوں سے ہمیں ہرگز انکار نہیں ہے اور ہم امت مسلمہ کی قیادت سے لے کر عام آدمی تک کے کردار پر شاکی ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلتیں جو مسائل کی جڑ ہوتیں ہیں، انہیں بھول جائیں۔ ہماری اس گفتگو کے چند دنوں بعد ایک بین الاقوامی ادارے نے ایران سے مصدق حکومت ہٹانے کے پورے آپریشن کی سٹوری چھاپ دی۔ ہم نے انہیں اس کا لنک بھیجا اور یہ بھی گزارش کی یہ اپنے سفارتکار دوست کو بھیجیں اور انہیں بتائیں کہ یہ کہانی بہت کچھ بتا رہی ہے۔

آج پاکستان مسائل کے جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے، اس کا سرا کہیں نہ کہیں افغان جہاد سے جا کر ملتا ہے۔ ہم بھی کتنے سادہ تھے کہ امریکی جنگ کو مذہب کے نام پر لڑا، اپنے بچے یتیم کرائے۔ انہیں شہداء قرار دیتے ہوئے بڑے بڑے اجتماعات میں علماء کی تقریروں میں انہیں سپرد خاک کیا۔ یہ بات تو بعد میں کھلی کہ مذہب کے نام پر ہم امریکی مفادات کے لیے لڑ رہے تھے اور ہم نے ایک ترقی کرتے پاکستان کا رخ جہاد انڈسٹری کی طرف موڑ کر اپنے معاشرے کی صدیوں پرانی شناخت پر وار کیا۔ ہم تکثیریت پسند معاشرہ تھے اور اب ایک یک رخہ اور ایک فکر کو مسلط کرنے والے معاشرے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہم میلوں اور میلادوں والے لوگ تھے اور آج ریاستی طاقت سے میلے بند کرا دیئے گئے ہیں۔ لوگوں کے پاس سے تفریح کی ہر سہولت لے کر انہیں انتہا پسندوں  کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ آپ دیکھیں ایک غلط فیصلے نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ایک قرض دینا پاکستان آج ایک روپیہ بجلی کے بل میں کمی بیشی آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا، ہم آج ملازمین کی تنخواہیں آئی ایک ایف کی اجازت کے بغیر نہیں بڑھا سکتے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ امریکہ نے افغانستان سے جاتے ہوئے جو بھی سودا بازی کی ہو، یہ حقیقت ہے کہ اسے امریکہ کے اندر اور باہر ہر دو جگہ پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ بھی جگ ہنسائی کا مورد تھا، جس انداز میں انہیں کابل ائیرپورٹ سے فرار کرنا پڑا۔ بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے لوگ ایک سپر پاور کی دعویدار ریاست کی لاچاری کو ملاحظہ کر رہے تھے۔امریکی سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کی کارروائی میں اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان اور آئی ایس آئی پر گرانے کی کوشش کی گئی بلکہ اسے ایک فیکٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ قارئیں کرام جب ریاست یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ اس کی شکست کا سبب کوئی ریاست ہے تو اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ پھر ریاستیں اپنی خودداری کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں الجھتے کہ امریکہ ہزاروں میل دور کیا کرنے آیا تھا؟ اسی طرح کسی دوسری ریاست میں اتنی لمبی مدت کے لیے قابض رہنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔

جب امریکی ریاست اپنی شکست کا سبب آئی ایس آئی کی ڈبل گیم کو قرار دے گی تو وہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ہم  اسے سیاست کی نظر سے دیکھ رہے تھے کہ عمران خان صاحب کو امریکی صدر کال نہیں کر رہے، حالانکہ وہ عمران خان کو نہیں، ریاست پاکستان کے وزیراعظم کو کال نہیں کی جا رہی تھی۔ قارئیں کرام المیہ یہ ہے کہ بین الاقوامی گریٹر گیم کا شکار شیعہ کمیونٹی ہی رہی ہے۔ جب اسّی کی دہائی میں پالیسی شفٹ آرہا تھا اور یہاں اس کے تحفظ کے لیے ضیاء الحق کی صورت میں بندوبست کر لیا گیا تھا۔ اس دور میں پارا چنار سے لے کر گلگت تک باقاعدہ لشکرکشیاں ہوئیں تھیں اور بڑی تعداد میں شیعہ عوام کا قتل عام ہوا تھا۔ امریکہ کے موجودہ قبضہ میں بھی پارا چنار نصف دہائی محصور  رہا اور گلگت بلتستان والوں کو بسوں سے اتار کر شناخت کرکے مارا جاتا رہا۔ اب فرقہ واریت کا اس تیزی سے چند ماہ میں ابھر کر یوں سامنے آجانا یہ بتا رہا ہے کہ پیچھے کوئی بڑی گیم ہو رہی ہے۔ کسی کے مفادات اس بات میں ہیں کہ پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کرائے جائیں۔

اس سال محرم صفر میں جس قدر شیعہ کمیونٹی کو گھر کے اندر مجالس کرنے پر زدکوب کیا گیا، یہ پوری کمیونٹی کو مشتعل کرنے والی بات ہے۔ اسی طرح جس تیز رفتاری سے نام نہاد بل پیش کیا گیا اور پھر سینیٹ تک سے پاس کرایا گیا، وہ بھی سوچی سمجھی اور دانستہ کوشش ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر جس طرح شیعہ کو بطور مکتب ٹارگٹ کیا اور اس کے خلاف قانون خود سے حرکت میں نہ آیا، یہ بھی ایک المیہ ہے۔ اب کہیں جا کر بڑے احتجاج اور کوشش کے بعد مینگل نامی فرقہ پرست کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے۔ یاد رکھیں کہ ایف آئی آر کسی کے بھی خلاف ہو، یہ سلسلہ معاشرے میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کا کام کرتا ہے۔ مفتی حنیف قریشی کے خلاف ایف آئی آر اور پھر ایف آئی آر کٹوانے والوں کے خلاف ایف آئی آر نے مسالک کے درمیان تناو میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ سپرپاور کی دعویدار ایک ریاست اپنی شکست کا ذمہ دار ہمیں سمجھتی ہے اور اس کا اثر و رسوخ کتنا ہے، اس پر بات کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے صاحبان اختیار کو اس فتنے کو کنٹرول میں لانا ہوگا، یہ نہ ہو خدانخواستہ ہم نوے کی دہائی میں دوبارہ لوٹ جائیں، جو اندھیروں کا دور تھا۔
خبر کا کوڈ : 1082428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش