تحریر: ایس این حسینی
جمعرات 7 ستمبر بروز اربعین حسینی صبح 10 بجے ایک اجنبی گاڑی مین روڈ کو چھوڑ کر کنج علیزئی کے نجی اور جلوس حسینی کے راستے پر آتی ہے، جسے کنج علی زئی کے سیکیورٹی رضاکار روکتے ہیں اور پھر قومی کمیٹی اور مشران کو اس کی اطلاع کرتے ہیں۔ قومی کمیٹی موقع پر پہنچ کر انکی شناخت کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گاڑی اور اسکی سواریوں کا تعلق غوز گڑھی سے ہے۔ جن کے ساتھ کنج علی زئی کا پہاڑ اور شاملات پر کئی دہائیوں سے تنازعہ چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ چار سال سے تو اس نے نہایت شدت اختیار کی ہے۔ تنازعہ بھی کچھ ایسا کہ کئی مرتبہ اس نے دشمنی کی صورت اختیار کی ہے۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔ موقع پر ہی پتہ چلتا ہے کہ ان پانچ میں سے دو کا تعلق خطرناک اور دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ کنج علی زئی کے خلاف وقتاً فوقتاً ویڈیوز کی صورت میں زہر بھی اگلتے رہے ہیں۔
اہلیان علاقہ کو انکی خبر پہنچی تو وہ کافی مشتعل ہوگئے، خصوصاً جوانوں کا ردعمل کچھ بڑھ کر ہی تھا۔ کیونکہ انکی سوچ میں بھی نہ تھا کہ انکے خلاف کھلم کھلا ہزرہ سرائی کرنے اور بکواس کرنے والے کبھی ایسے حساس دن کو ان کے نجی راستے پر بھی آسکتے ہیں، تاہم عمائدین اور کمیٹی ممبران بروقت کاروائی کرتے ہوئے انہیں فوراً وقوعہ سے دور لے جاکر ایک مسجد میں لے گئے۔ مسجد میں خاطر مدارت کرتے ہوئے انہیں خوب عزت سے بٹھایا گیا۔ خیال رہے کہ اربعین کی حساسیت کے باعث موبائل سروس بند تھی جبکہ غیر ضروری ٹریفک بھی بند تھی۔ چنانچہ موبائل سروس کی عدم دستیابی کے باعث کمیٹی والوں نے ایک گاڑی تائیدہ قلعہ روانہ کی اور وہاں ایف سی کو اس کی اطلاع کردی۔ صوبیدار رحمان اللہ کی قیادت میں دو گاڑیوں میں ایف سی کی نفری مسجد میں پہنچ گئی۔ ایف سی پہنچنے تک کمیٹی ممبران اور عمائدین نے پانچ ان مشکوک شرپسندوں سے تفتیش شروع کی اور باری باری انکا بیان لیا گیا۔
ان سے مندرجہ ذیل سوالات کئے گئے:
1۔ کہاں سے آرہے تھے اور ارادہ کہاں کا تھا؟
2۔ کس کے کہنے پر تم نے گاؤں کے راستے پر چل کر یہ جسارت کی؟
3۔ آج کے دن کی حساسیت کا تمہیں کوئی علم نہیں؟ مین روڈ کی بجائے آپ لوگوں نے اس نجی روڈ اور جلوس روڈ کا استعمال کیوں کیا؟
ان سوالات کے جوابات میں شرپسندوں کا جواب کچھ یوں تھا:
1۔ بجلی کرنٹ لگنے سے غوز گڑھی میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا تھا۔ انکے جنازے میں شرکت کرانے کیلئے افغانستان میں انکے خاندان کی دو خواتین کو بارڈر کراس کرانے کی اجازت لینی تھی۔ اسی سلسلے میں غوز گڑھی سے تائیدہ قلعہ جارہے تھے۔
2۔ غوز گڑھی سے آکر سب سے پہلے باسو قلعہ گئے اور وہاں ایف سی کے حوالدار اور ایک اور اہلکار سے ملاقات کی۔ انہیں اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اپنے ذاتی تعاون سے معذرت کرکے ہمیں تائیدہ قلعہ میں موجود ونگ کمانڈر اور انکے عملے کے پاس روانہ کیا۔
3۔ بالکل ہمیں علم تھا تاہم ہمیں یہ بھی یقین تھا کہ طوری قبائل عام ایام میں بھی کسی کو اذیت نہیں دیتے جبکہ آج تو ایک اہم اور عظیم دن ہے۔ اس موقع پر ہم ان سے مکمل مطمئن تھے، چنانچہ لمبے راستے پر جانے اور ٹائم ضائع کرنے کی بجائے ہم نے اس شارٹ راستے کا انتخاب کیا۔
ان پانچ میں سے ایک کا نام عمران مقبل تھا۔ جو کہ غوزگڑھی ویلج کونسل میں جنرل کونسلر ہیں جبکہ وہ خود رہتے صدہ میں ہیں۔ وہ صدہ میں بیٹھ کر آئے روز کنج علیزئی اور غنڈی خیل کے خلاف اشتعال انگیز ویڈیو ریکارڈ کراتا ہے۔ غوز گڑھی کے اندر، جہاں طوریوں کا جانا ناممکنات میں سے ہے، خود ساختہ کوئی کاروائی انجام دیتا ہے اور ویڈیو میں اسکا الزام علی زئی اور غنڈی خیل پر عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انکے پاس درگئی کا ایک ملک بھی تھا۔ بہر صورت مقصد کے حوالے سے تو ان کے بیانات میں کوئی تفاوت نہیں تھی۔ تاہم مقبل کی بالعموم جبکہ عمران کی بالخصوص جارحانہ پالیسی اور سابقہ کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے انکا ایسے حساس دن علی زئی کا نجی راستہ استعمال کرنا شکوک و شبہات اور اشتعال انگیزی سے خالی نہیں تھا۔
چنانچہ ان سوالات کے علاوہ عمران مقبل کو قرآن دیکر پوچھا گیا کہ 8 محرم اور پھر 10 محرم کے حساس موقع پر رات کو علی زئی پر فائرنگ کرنے کے بعد تم نے جو ویڈیو کی تھی اور علی زئی پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ہمارے علاقے میں مائن نصب کئے ہیں۔ اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے، کیا یہ مائن واقعی علی زئی نے رکھے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ قرآن ہے، میں کیسے کہوں جبکہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ مائن کس نے رکھے ہیں۔ دوبارہ سوال کیا کہ جب پتہ نہیں تو ویڈیو میں علی زئی پر الزام کیوں لگایا۔ کہا کہ میں نے علی زئی کا نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا کہ انکی طرف رکھے گئے تھے۔ پھر ان سے حلفاً پوچھا گیا کہ اچھا تم یہی کہو کہ مائن رکھنے والوں کا تجھے کوئی علم نہیں۔ تو کہا کہ بیشک مجھے نہیں معلوم۔ پھر پوچھا کہ مقبل اور علی زئی کے مابین جنگ کی ابتداء کس نے کی۔ تو انہوں نے کہا کہ تیسری فریق نے۔ پوچھ تیسرا فریق کون ہے۔ کہا حکومت۔
پھر پوچھا گیا کہ طالبان کس طرف موجود ہیں تو انہوں نے کہا کہ پتہ نہیں لگتا، تاہم طالبان ہمارے قبائل میں پائے جاتے ہیں۔ تین افراد سے تفتیش ہوگئی۔ اس دوران ایف سی والے آگئے۔ کمیٹی نے ایف سی سے پوچھا کہ جب یہ راستہ جلوس کی وجہ سے بند تھا اور سیکیورٹی کے باعث آپ لوگوں کے ساتھ بات بھی طے ہوگئی تھی، تو آپ لوگوں نے انہیں اجازت کیوں دی۔ تو انہوں نے اس الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ یہ کہ باسو میں انہیں بار بار منع کیا گیا ہے، انہوں نے زور زبردستی کرتے ہوئے اس راستے کا استعمال کیا ہے۔ آخر میں صوبیدار رحمان اللہ کو انکے موبائل حوالے کرکے تاکید کی گئی کہ انہیں چیک کرو کہ انہیں کوئی گزند تو نہیں پہنچی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اب انہیں اپنے ساتھ قلعہ لے جاکر دوبارہ تفتیش کریں کہ
1۔ انہیں کوئی مالی یا جسمانی نقصان اور اذیت تو نہیں پہنچی؟
2۔ تسلی کریں کہ یہ لوگ کس مقصد کیلئے اس مخصوس دن آئے تھے کیونکہ مقبل اور منگل اکثر دہشتگردوں خصوصاً خودکش حملہ آوروں کی سہولتکاری کرتے ہیں، کہیں انکا مقصد کچھ اور تو نہیں؟
3۔ قلعہ جاکر جلوس ختم ہونے تک انہیں اپنے پاس رکھیں۔ جلوس ختم ہونے کے بعد انہیں رخصت کریں۔
یوں تمام کے تمام پانچ شرپسندوں کو حکومت کے حوالے کیا گیا۔
جاری ہے