اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم کو اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ جنگ بندی حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کا واحد راستہ ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صہیونی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کی جس میں مبینہ طور پر وزرا کے ایک منتخب گروپ اور فوجی قیادت نے بتایا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی ہی غزہ میں یرغمال اسرائیلیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ ذارئع نے اسرائیلی میڈیا ہاؤسز کو بتایا ہے کہ تل ابیت میں وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹرز میں منعقدہ اجلاس میں سیکیورٹی ایجنسی شین بیٹ کے سربراہ رونن بار، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہلاوی، موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا اور اسرائیلی فوج میں یرغمالیوں کی نمائندگی کرنے والے میجر جنرل (ر) نیٹزان ایلن نے کابینہ کو بتایا کہ حماس گزشتہ ماہ سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کے باوجود یرغمالیوں کے بدلے جنگ بندی اور فوجی انخلا مطالبے پر قائم ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ فوجی سربراہان کا خیال ہے کہ اس طرح کے مطالبات سے اتفاق کرنا ہی کسی معاہدے تک پہنچنے کا واحد راستہ ہوگا۔ ایک سینئر دفاعی عہدیدار نے چینل 13 نیوز کو بتایا کہ حماس کے موقف کے پیش نظر موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا معاہدے تک پہنچنے کے لیے نئے آپشنز پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حماس نے حالیہ ہفتوں میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قلیل مدتی انتظامات کو مسترد کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کو ہونے والے اجلاس میں وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر، وزیر خارجہ گیدون سار، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ شریک تھے۔ یہ ملاقات اتوار کو وزیر دفاع اور دفاعی حکام کے درمیان یرغمالیوں کے موضوع پر منعقدہ جائزے کے بعد ہوئی ہے، جس کا اعلان وزیر دفاع کے دفتر نے کیا تھاجبکہ شین بیٹ نے بھی ایک علیحدہ مشترکہ اجلاس کے بارے میں بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں ’یرغمالیوں کی واپسی کی کوششوں کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوجی سربراہان نے وزیر دفاع کو 400 دنوں سے غزہ میں موجود یرغمالیوں کی صورتحال کے حوالے سے انتہائی خوفناک جائزے سے آگاہ کیا۔ گزشتہ ہفتے یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم کی طبی ٹیم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کچھ یرغمالی دوران قید خوراک کی کمی کی وجہ سے تقریباً آدھا وزن کھوچکے ہیں، جس کے باعث موسم سرما میں ان کے زندہ رہنے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہیں اور مذاکرات کی بامعنی بحالی کا کوئی واضح اشارہ نظر نہیں آرہا۔ اس حوالے سے کیے گئے جائزوں میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کی ایک بڑی اکثریت یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدے کی حمایت کرتی ہے جس سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہوگا۔
ناقدین نے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے دائیں بازو کے اتحاد کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، انتہائی دائیں بازو کے عناصر چاہتے ہیں کہ لڑائی جاری رہے اور شمالی غزہ میں بستیاں قائم کی جائیں۔ نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں لیکود کے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ اسرائیل یرغمالیوں کے بدلےحماس کے جنگ بندی کے مطالبے کو قبول نہیں کرسکتا۔ دریں اثنا اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب سمیت کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے، گزشتہ روز قیصریہ میں موجود نیتن یاہو کے گھر پر مظاہرین نے 2 فلیش بم پھینکے تھے جو اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سبزہ زار میں گرے تھے تاہم اس وقت نیتن یاہو اور ان کے اہلخانہ گھر پر موجود نہیں تھے، اسرائیلی فورسز نے نیتن یاہو کے گھر پر حملے میں ملوث 3 افراد کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔