تحریر: محمد علی زادہ
امریکہ کے نئے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ جلد ہی وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو جائیں گے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اس متنازعہ سیاستدان کی اقتدار میں موجودگی کے دوران ان کے خلاف جاری عدالتی مقدمات کا کیا ہو گا؟ کیا ان پر لگائے گئے الزامات اور جرائم ثابت ہو جانے کے باعث ان کے ٹرائل کا عمل مکمل ہو جائے گا یا ہم اس بارے میں کسی اور عمل کا مشاہدہ کریں گے؟ موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہترین ممکنہ صورت میں، ٹرمپ کے مقدمات ان کی نئی صدارت کے خاتمے کے بعد ہی، یعنی 2029ء میں گردش میں آئیں گے، اور حتی انہیں قید کی سزا سنائے جانا بھی وائٹ ہاؤس میں ان کی موجودگی میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو گی۔ مزید برآں، ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے خصوصی اختیارات کا سہارا لے کر متعدد مقدمات میں خود کو اور دیگر مجرموں کو معاف کر سکتے ہیں اور امریکی سپریم کورٹ کی مدد سے اپنے خلاف مقدمات بند بھی کروا سکتے ہیں۔
ٹرمپ پر عائد فرد جرم
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ متعدد مقدمات میں ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے جن میں نیویارک میں ان کی کمپنیوں کی ٹیکس چوری، فحش فلموں کی اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینا اور اسے چھپانا، 6 نومبر 2021ء کے دن کانگریس پر حملہ اور ہنگامے اور اپنے ذاتی گھر (فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی بنگلہ پام بیچ) میں خفیہ دستاویزات رکھنا شامل ہیں۔ 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، نیویارک میں ان کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کے سامنے یہ سوال اٹھاتی ہے کہ "کیا وہ منتخب صدر کو سزا سنا کر عدالتی کاروائی کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں؟ یا کیا یہ مسئلہ ٹرمپ کو اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھانے سے روک سکتا ہے؟ ان مقدمات کی سماعت کرنے والے جج، خوان ایم مرچن نے سماعت کم از کم 19 نومبر تک ملتوی کر دی ہے تاکہ وہ اور دونوں فریقین کے وکلاء یہ دیکھ سکیں کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔
لہذا عدالت کے جج نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات کا فیصلہ سنانے کی تاریخ 26 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ مئی 2024ء میں، ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک میں "کاروباری دستاویزات" کی جعل سازی کے مقدمے میں 34 الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ ججوں کے بینچ کے مطابق، ان پر فحش فلموں میں ایک اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینے کے مقدمے میں تمام الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے وکلاء نے جج مرچن سے کہا ہے کہ وہ سزا سنانے کا عمل روک دیں۔ ایسا فیصلہ جس میں امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق اور آئندہ صدر کو سزا سنائی جائے گی۔ البتہ جج خوان مرچن کے پاس ایک اور راستہ بھی ہے جس کے ذریعے وہ عدالتی کاروائی بھی نمٹا سکتا ہے اور صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سرگرمیوں میں کسی قسم کا خلل پیدا ہونے کی روک تھام بھی کر سکتا ہے۔
بغیر سزا کے جرم
اگر جج مرچن چاہے کہ اعلان شدہ ایجنڈے کے مطابق عدالتی کاروائی بھی آگے بڑھے اور امریکی صدر ہونے کے ناطے ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری فرائض میں کوئی رکاوٹ بھی پیش نہ آئے، تو وہ ان کے خلاف جاری مقدمات میں سزا سنائے جانے کے عمل کو 2029ء میں ان کی مدت صدارت ختم ہونے تک ملتوی کر سکتا ہے۔ اس وقت تک ٹرمپ 82 سال کے ہو جائیں گے اور ان کے خلاف عائد الزامات سے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ 2029ء تک ان مقدمات کا جج تبدیل ہو جانے اور مقدمات خود بخود ختم ہو جانے کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔ اگر جج مرچن سزا کا عمل ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو عین ممکن ہے وہ خود جج باقی نہ رہ سکیں کیونکہ اس وقت تک وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ یوں ٹرمپ کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔
ایسا مقدمہ جسے ختم ہونا چاہیے!
یہاں ایک دوسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کے خلاف جاری عدالتی کاروائی اختتام پذیر ہو جائے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے مقدمے کا جج، خوان مرچن، ٹرمپ کی جانب سے استغاثہ کو منسوخ کرنے کی سابقہ درخواست کے ساتھ ساتھ اس ملک کے سابق صدور کے عدالتی استثنیٰ کے حوالے سے جولائی میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارا بھی لے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ٹرمپ اپنے ذاتی اختیارات استعمال کیے بغیر بھی اپنے خلاف عدالتی کاروائی کو اس مرحلے میں اختتام پذیر تصور کر سکتے ہیں! جج نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ منگل کو ٹرمپ کے مقدمے کا فیصلہ جاری کریں گے تاہم یہ فیصلہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پہلے کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے وکلاء نے دلیل پیش کی ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمے کو غیر معتبر کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیش کی جانے والی گواہیاں اور دستاویزات، ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت سے متعلق ہیں۔ جج ممکن ہے ایک نئی عدالت تشکیل پانے کا حکم دے ڈالے، جس صورت میں اس کی تشکیل ٹرمپ کی مدت صدارت کے خاتمے سے پہلے ممکن نہیں ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ، 34 الزامات میں سزا سنائے جانے کے باوجود (جن کا تعلق چار اہم مقدمات سے ہے)، آسانی سے سزا سے بچ سکتے ہیں اور وہ اس بچ جانے کو قانونی بھی قرار دے سکتے ہیں! یہ ہے امریکی انصاف! ایسا انصاف جس میں جرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی صدر کو سزا نہیں ملتی۔ یہاں کئی اہم سوالات اور ابہامات پائے جاتے ہیں، جیسے: ٹرمپ کے خلاف مختلف مقدمات کی سماعت گزشتہ چار سالوں میں کیوں ملتوی ہوتی رہی؟ عدالتی اور سیکورٹی اداروں نے انتخابات تک ان کے خلاف حتمی فیصلہ کیوں نہیں آنے دیا؟ جواب واضح ہے: امریکی عدالتی نظام کا مکمل طور پر سیاسی ہونا اور اس ملک میں بنیادی ترین قوانین کا بھی حقیقی نہ ہونا۔